کھلی آنکھوں کا خواب (تیرہواں حصہ)
سوئے بغداد
ہم گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ شکر کے ایک گہرے احساس کے ساتھ کربلا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سوچ کے ساتھ کہ جانے زندگی میں پھر ایسا موقع ملے یا نہیں۔ سوئے بغداد روانہ ہوئے۔ گاڑی کربلا سے نکل کر سوئے بغداد روانہ ہوئی۔ ہم نے حسب عادت شکر کے بے پایاں احساس کے ساتھ شکر کے سجدے کیے ۔ اللہ کی ایسی شاندار میزبانی پر سراپا شکر ہوئے تو بیٹی اور داماد کے لیے دعا گو، جنہوں نے قدم قدم پر آرام و آسائش کا خیال رکھا اور دعائیں سمیٹیں۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی سوچ کے کئی در وا ہوتے ہیں۔ ادھر گاڑی فراٹے بھرتی ہے تو ادھر خیالات کی رو بہنے لگتی ہے اور اس سفر محبت و عقیدت کے تو کیا کہنے۔ اک نیا تجربہ، ایک نیا احساس دل میں موجزن ہوجاتا ہے۔ بچپن سے پڑھے ہوئے واقعات، مرثیے اشعار یوں یاد آتے رہے جیسے کسی نے بلینڈر میں ڈال کر بلینڈر چلا دیا ہو۔ خود کلامی، سرگوشیاں جو دل نے کہیں اور دل نے سنیں۔ درد کی لذت اور اشکوں کی رعنائی محسوس کی۔ احساسات و جذبات کے انوکھے تجربے سے گزری۔ مالک لوح و قلم نے ان جذبات کو تحریر کرنے کی توفیق دی۔ منقبت عطا ہوئی۔ ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے۔
باہر ایسی گرمی تھی کہ اے سی کے باوجود دل گھبرانے لگا مگر صد شکر کے سفر طویل نہ تھا۔ کربلا سے بغداد ایک ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ بغداد اساطیری شہر علم و فضل کا گہوارہ۔ عباسی خلفا ہارون الرشید، ملکہ زبیدہ۔ امام ابو حنیفہ، امام حنبل، کاظمین، بہلول دانا۔ داستان در داستان۔ علم و فضل کی بھی، ظلم و ستم کی بھی۔ ہلاکو، چنگیز خان، الف لیلیٰ کی داستانیں۔ اور شیخ عبدالقادر گیلانی، جنید بغدادی۔
آل رسول ﷺ کے در پر حاضری کی سعادت کے بعد ہم بغداد کے تاریخی اور اساطیری شہر میں داخل ہونے والے تھے جہاں شیخ عبدالقادر گیلانی مری عقیدت و محبت کے مرکز ہیں۔ شہر سے کچھ پہلے ڈرائیور نے متوجہ کیا۔ یہ فرات ہے۔ قدیم فارسی کے لفظ افراتو سے ماخوذ لفظ فرات کا مطلب وسیع پیمانے پر بہتا ہوا پانی ہے۔ یہ دو شاخوں مشرقی فرات (مراد) اور مغربی فرات (کارا) سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ عراق کے شہر بصرہ کے شمال میں یہ دجلہ سے جا ملتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کے مجموعی دھارے کو 6 شط العرب کہتے ہیں۔
بعض روایات کے مطابق فرات ایک مقدس اور با فضیلت دریا ہے جس میں جنت کا پانی گرتا ہے۔ یہ ایک بابرکت دریا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر نومولود بچے کے منہ میں آب فرات ڈالا جائے تو اس کے دل میں اہل بیت سے محبت کا جذبہ آ جاتا ہے
فرات ایک بہشتی دریا ہے۔ واقعہ عاشورہ دریائے فرات سے نکالی گئی ایک نہر کے کنارے پیش آیا۔ یہ وہی دریا ہے جس کے کنارے امام حسین اور لشکر حسین پر پانی بند کر دیا گیا تھا اور یہ وہی دریا ہے جس سے حضرت عباس جب پانی لینے گئے تو اس کے کنارے ان کے بازو قلم کر دیے گئے تھے۔
پیاسی تھی جو سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹختی تھیں موجیں فرات کی
عباس آبرو میں تیری حرف آئے گا
پانی پیا تو نام وفا ڈوب جائے گا
فرات کے حوالے سے میر انیس یاد اے۔ اقبال کا شعر کان میں سرگوشیاں کرنے لگا:
رہے گا وادی نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے
افسوس امت مسلمہ اقبال کے اس پیغام کو نہ سمجھی۔ مسلم امہ اپنی تمام تر دولت اور طاقت کے باوجود مغربی طاقتوں کی کاسہ لیس ہے۔
باغات اور رونق دکھائی دی تو اندازہ ہوا کہ اب ہم بغداد میں داخل ہونے والے ہیں۔ جگہ جگہ ناکے اور چیک پوسٹس بنی ہوئی تھیں۔ پروٹوکول کی ایک گاڑی چلی گئی۔ میرے ذہن میں جنگ اور امریکی تسلط کے بعد والا عراق تھا مگر کشادہ سڑکیں، بلند و بالا عمارات میرے خیالات کی نفی کر رہے تھے۔ یہ صدام کے بیٹے اور بیٹی کا محل تھا جو اب ہوٹل اور سرکاری عمارات میں بدل دیا گیا ہے۔ قادر صدام کا زبردست مداح تھا۔ وہ بتانے لگا کہ صدام کے دور میں قانون کی حکمرانی تھی۔
اب ہم گرین زون میں داخل ہو گئے جو عراق کا پوش علاقہ ہے۔ بلند و بالا عمارات، جدید کشادہ سڑکیں اور گھنے پیڑ دکھائی دیے۔ ہمارا ہو ٹل بھی یہیں تھا۔ داخل ہونے سے پہلے پھر ایک چیک پوسٹ سے گزرے اور ایک بہت ہی شاندار عمارت میں داخل ہوئے۔ وسط میں مجسمہ ایستادہ تھا۔ ارد گرد لش گرین لان اور فوارے تھے۔ امی یہ صدام کے دور کا بنا ہوا ہے۔ اس کے اندر کرسٹل اور سامان سارا اٹلی کا لگا ہوا ہے۔ یہ الرشید ہوٹل ہارون الرشید کے نام پر بنایا گیا ہے۔ گاڑی سے اترے تو گرم لو کے تھپیڑوں نے استقبال کیا۔ آج کل یہاں پچاس ڈگری درجہ حرارت چل رہا ہے جو اے سی سے نکل کر مزید گرم محسوس ہوتا ہے۔
ہم سب اندر داخل ہوئے۔ سرد جھونکوں نے جسم و جاں کو تسکین دی تو کشادہ لابی اور لاؤنج کرسٹل کے بیش قیمت فانوس بھلے لگے۔ کمرے میں پہنچ کر تازہ دم ہو کر نماز پڑھی۔ دو کمروں کے درمیان ٹی وی لاؤنج تھا۔ کمرے میں پھلوں سے سجی پلیٹ میں سوائے آم کے موسم بے موسم کے تمام پھل موجود تھے۔ پھل یوں بھی مجھے پسند ہیں مگر ان کے رنگ اور سجاؤٹ آنکھوں میں سما رہی تھی۔
احمد دفتر سے آئے۔ عائشہ نے کہا، زیارات پر آج نہیں، کل چلیں گے۔ آج ویسے ہی گھوم پھر لیتے ہیں۔ میں آپ کو صدام کے دور کا ایک شاندار ہوٹل دکھاتی ہوں۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد ان بم پروف ہوٹلز میں سفرا وامرا کے رہنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ یونہی باتیں کرتے ہوئے ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ باہر سے ہی اس کی شان و شوکت نظر آ رہی تھی۔ اندر لابی میں پرانی رولز رائس کاریں کھڑی تھیں۔ لاؤنج میں فانوس اور روشنیاں نظروں کو خیرہ کیے دے رہی تھیں۔ ہم لاؤنج سے گزر کر باہر سوئمنگ پول کے کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سوئمنگ پول کے اندر بڑی سکرین لگی ہوئی تھی۔
کیا کھائیں گی؟ کچھ نہیں۔ کھانا دیر سے کھایا ہے مگر عائشہ نے پھر بھی کنافہ منگوا لیا۔ کنافہ مجھے پسند ہے مگر یا تو بھوک نہیں تھی یا وہ اتنا لذیذ نہیں تھا کہ کھایا نہیں گیا۔
تالاب کے کنارے بیٹھی وہاں کا جائزہ لے رہی تھی کہ مجھے مغربی سفید لباس میں ملبوس دلہن نظر آئی۔ مغربیت، آزادی، کروفر، چکا چوند یہ سب دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ملک جنگ اور بمباری و تباہی کا دور دیکھ چکا ہے۔ بغداد کی الف لیلوی داستانیں ماضی، حال، مستقبل اپنا ملک امت مسلمہ، بہت کچھ یاد آتا رہا۔ موسم گرم تھا۔ باہر کولر اور پنکھے لگے ہوئے تھے مگر پھر بھی گھٹن سی ہونے لگی۔ اس دلفریب فضا میں گھٹن کی وجہ وہ تمام خیالات تھے جو غیر ارادی طور پر کبھی اپنے ملک سے موازنہ کی وجہ سے تھے اور کبھی یہ خیال آتا کہ عراق کے عام آدمی کی کیا حالت ہے، کیسی زندگی ہے اس کی۔ یہ ہوٹل تو خاص بلکہ خاص الخاص لوگوں کے لئے تھا۔ کاش دولت واقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے حکمران محلات اور قصر بنانے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی حالت زار بہتر بنانے پر بھی توجہ دیں تو وقت آنے پر عوام ان کے مجسمے گرانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کاش۔ اے کاش۔
(جاری ہے )
- یادوں کی پٹاری سے ایک پچاس سالہ پرانا خط - 17/04/2025
- بہار آئی کہ جیسے یک بار کھل اٹھے ہیں گلاب سارے - 14/04/2025
- ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم - 25/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).