مزاحمت کی علامت: بلوچ عورت
یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ جنگیں صرف فوجوں اور بہادر مردوں نے لڑی تھیں، جب کہ عورتیں اور بچے اپنے گھروں کے اندر بزدل بن کر بند رہے تھے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں نے بھی ہر ممکن جنگی حالتوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اپنے تخلیقات سے بھی جنگجووں کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی ہمت بڑھائی۔ تاریخ میں ہمارے پاس ایسی کہیں ساری خواتین کی تعداد موجود ہے جنہوں نے اپنے اپنے طریقے سے اپنے ملک و قوم کی خدمت کی اور آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دیں۔ سیمون سیگؤن، لیلی خالد، بانڑی جیسی کہیں ساری مثالیں ہر قوم میں ملتی ہیں۔
جس طرح ہم حال میں 2022 ء میں یوکرین اور 2023 ء میں فلسطین کی بہادر خواتین کو اپنے ملک میں ساتھ مل کر لڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اسی طرح بلوچستان کے وسیع و عریض علاقے میں بھی ناہموار مناظر میں جدوجہد کی بازگشت گونجتی ہوئی کہیں سالوں سے دکھائی دے رہی ہے۔ کہیں سالوں سے چلنے والے بلوچ تحریک نے ایک نیا موڑ لے لیا۔ یہ موڑ فرزانہ مجید کے 2013 ء میں کیے گئے لانگ مارچ، کریمہ بلوچ کی جد و جہد سے شروع ہو کر آج ہزاروں بلوچ خواتین کی شراکت پر متحرک ہے۔ یہ بلوچ خواتین ہی ہیں جو گمنام ہیروئنوں کے طور پر ابھرتی ہیں، جو کہ جاری انسانی بحران کے پس منظر میں مزاحمت کا چہرہ ہیں۔
بلوچ قوم پرست سیاست نے کہیں دہائیوں سے اپنے لوگوں کو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے حقوق کے تحفظ کے لیے متحرک کر رکھا ہے، بالاچ بلوچ کی شہادت نے اس تحریک میں مزید جان ڈال دی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر سایہ بالاچ بلوچ اور دیگر تین زیر حراست نوجوانوں کے موت پر 23 نومبر 2023 ء میں تربت شہر سے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ چودہ روز کے مکمل احتجاج کے بعد چھ دسمبر 2023 ء کو احتجاجی دھرنا ایک لانگ مارچ کی صورت اختیار کر گیا جس کی قیادت ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین محمد بلوچ، سیما بلوچ اور کہیں خواتین نے مل کر کی۔
یہ مارچ بلوچستان کے مختلف پہاڑی علاقوں سے گزر کر چھ دن بعد گیارہ دسمبر کو کوئٹہ داخل ہوا جہاں اس کی قیادت میں اہم کردار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ادا کیا۔ ان کے والد غفار لانگو کو پہلے 2006 ء میں جبراً لاپتہ کر کے کچھ عرصے بعد چھوڑ دیا مگر 2009 ء میں انہیں پھر سے لاپتہ کر کے 2011 ء میں ان کی لاش مسخ شدہ حالت میں قوم کو سونپا گیا۔ پنچگور سے بسیمہ، گریشہ، نال، خضدار، سوراب، قلات، منگچر ہر جگہ اس لانگ مارچ پر تشددانہ حملے اس کی وسعت کو اور بڑھاتے گئے۔ ہر شہر سے مرد اور عورتوں نے جوق در جوق اس میں شمولیت اختیار کی۔ ریاست کے منفی رویے کی وجہ سے یہ مارچ بلوچستان کے مرکزی ڈسٹرکٹ کوئٹہ میں رکھنے کے بجائے پاکستان کے مرکزی شہر اسلام آباد کی طرف رواں ہونے کو نکلا۔
بلوچ خواتین جو ہمیشہ سے اپنے ثقافت کی نگہبان رہی ہیں، وہ اپنی دستکاریوں اور دوچ کے متحرک رنگوں سے اپنے روایات میں جان ڈالتی ہیں۔ آج کی دنیا میں جہاں خواتین اپنے حقوق اور صنفی مساوات کے لیے تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں زندہ کیے ہوئے ہیں، وہیں بلوچ خواتین ایک الگ داستان رقم کرتی ہیں، وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے مردوں کے حقوق کے لیے بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کی آوازیں یک آواز ہو کر اپنے لاپتہ بھائیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
لیکن چونکہ ایک خوفزدہ ریاست اپنے عوام کے حقوق پر قابض ہو کر خود اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وہاں آئین کا نفاذ عمل کسی صورت بھی ممکن نہیں بلکہ آئین صرف ایک مسودہ ہے جسے ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار کرنے کے لیے بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر ان کے بنائے گئے قوانین کو تسلیم کرنا ہمارے ریاست کی ضرورت میں آتا ہے نہ کہ وہاں رہنے والے انسانوں کو ان کے حقوق سے آشناس کرانے کے لیے۔ اس بات کی واضح مثال بلوچ قوم کی نسل کشی کے خلاف چلنے والے پرزور اور پرامن تحریک پر پابندی عائد کرنے کے لیے ریاست کی جانب سے مختلف تشددانہ طریقے استعمال کرنے سے پتہ چلتا ہے۔
چھبیس روز سے چلنے والے احتجاج اور دھرنے نے لانگ مارچ کی جانب گامزن ہو کر اپنے پیاروں کی بازیابی، ماورائے عدالت قتل اور دفاع کا حق مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، جو کہ ہر فرد کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ پچھلے دو دنوں سے ڈیرہ غازی خان میں پنجاب پولیس کی طرف سے تشدد آمیز عمل قابل مذمت ہے۔ یہ تشدد صرف پنجاب پولیس کی طرف سے نہیں کیا گیا بلکہ جس دن سے اس احتجاج نے لانگ مارچ کی جانب اپنے قدم بڑھائے ہر قدم پر انہیں روکنے کی کوشش کی گئی ہے جو خود ریاست کی کمزوری کا احساس دلاتا ہے۔
بلوچ قوم نے ہرگام اپنی بقاء کے لئے جد و جہد کی۔ 27 اکتوبر 2013 ء میں دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی براستہ سندھ پنجاب سے اسلام آباد کی طرف کیا گیا، جس کا مقصد بھی لاپتہ افراد کی بازیابی تھی۔ اس مارچ کی قیادت بلوچ نوجوان لیڈر بی ایس او کے سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید جنہیں 8 جون سنہ دو ہزار نو ( 2009 ء) میں لاپتہ کر دیا گیا جن کا تاحال کچھ پتہ نہ چلا، ان کی بہن فرزانہ مجید، وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے روح رواں سینئر رہنما ماما قدیر، جن کے بیٹے جلیل ریکی کو لاپتہ کر کے شہید دیا گیا، نے کیا۔
اس مارچ میں سمی دین محمد بلوچ، ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی جو اس وقت صرف چودہ سال کی تھی، ان کے والد کو اور ناچ ہسپتال سے 2009 ء کو اٹھایا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں، بھی شامل تھیں اور آج اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک اور لانگ مارچ کی قیادت میں اپنا حصہ ڈال کر بلوچستان بھر کے عوام بالخصوص خواتین کو مشتعل کیا کہ وہ اپنے اور اپنے پیاروں کے حقوق کے لیے ہم آواز ہوں۔ ریاست نے اس وقت بھی کہیں ستم کر کے ایک پر امن لانگ مارچ کو آگے بڑھنے سے اسی طرح روکا جس طرح آج بلوچ نسل کشی کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ کو روکا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر شہری کے حقوق برابر ہیں مگر یہاں کچھ شہریوں کو ہی اپنی بات کرنے، حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے سے روکا جا رہا ہے۔ ان ریاستی ہتھکنڈوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ’اسلام آباد‘ کو کچھ ’خاص‘ لوگوں کے لیے ملک کا دارالحکومت بنایا گیا ہے وگرنہ وہاں جانے سے کسی بھی فرد کو روکنے کے لیے انہیں گرفتار کر کے قید و بند میں نہیں رکھا جاتا۔ یہ ریاستی عمل سراسر انسانوں کے جمہوری و آئینی حقوق کی پامالی کرتا ہے۔
مگر بلوچ خواتین لمبی اور مشکل سڑکوں سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں، ان کے قدم تاریخ کی بازگشت سے گونج رہی ہیں، ان کا یہ عمل اس بیانیے کو تقویت دیتی ہے کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کی طاقت اس کی خواتین کی ہمت وچک میں مضمر ہے۔ بلوچستان کی بلوچ خواتین نے سیاسی سرگرمیوں میں تاریخی طور پر ایک اہم کردار ادا کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ سابقہ بدامنی کے مقابلے موجودہ احتجاج میں زیادہ نمایاں ہیں۔ وسیع و عریض وسعتوں کے درمیان، یہ بلوچ خواتین ہی ہیں جو بغاوت کے کینوس کو پینٹ کرتی، نعرے لگاتی، دیواروں کو روشن رنگوں سے چھڑک کر یہ اعلان کر رہی ہیں، ”مزاحمت زندہ ہے کیونکہ مزاحمت ہی زندگی ہے“ ۔
- عید، مزاحمت اور بلوچ - 03/04/2025
- خواتین کھیل کے میدان میں - 04/01/2025
- لیاری کی بے بسی - 28/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).