سلمی اعوان : ریشم کی اٹی یا اک جیول باکس


یاد کی سیڑھی لگا کر کہیں نیچے اپنے بچپن کو نو خیزی میں داخل ہوتے زمانے کو یاد کروں تو شاید یہ رسالہ زعفران تھا جہاں سلمی اعوان کی پہلی تحریر یادداشت کے خانے میں کچھ کچھ محفوظ ہے، شگفتہ سی کھلکھلاتی تحریر، حیرت ہوئی کہ کوئی عورت کیسے اتنی دلیری سے اپنی صورت و شخصیت پہ ہنس سکتی ہے اور تنقید کر سکتی ہے کچھ ایسے کہ ہنسنے پہ مجبور کردے۔ اس رسالے میں ساتھ کارٹون بھی ہوا کرتے تھے، ساڑھی کا پلو کھینچتا کتا۔

کچھ کچھ یاد ہے۔ گر کچھ خلط ملط کر بیٹھوں تو معاف فرمائیے گا کہ یہ نوخیزی کے دن تھے، یادداشت کا قصور ہے۔ بس بتانا مقصود یہ ہے کہ سلمی اعوان کو بہت نو عمری سے پڑھتی آئی ہوں اور تحریر و کارٹون سے تب کا اک خاکہ سا ذہن میں بنا ہوا ہے۔ عمر بھی تو ایسی تھی کہ من میں تصویر کشی ہوتی رہتی تھی اور میرا کیا ہے کہ مرا جذب و وفور تو لفظوں کو صورتوں میں ڈھال دیتا ہے۔

اس کے بعد سلمی اعوان کی تحاریر نوائے وقت میں قسط وار پڑھیں۔ لہو رنگ فلسطین نے جہاں خون کے آنسو رلائے وہاں ان کا حیرت انگیز ہوم ورک، موضوع پہ گرفت، حالات و زمانے کے مطابق معلومات کے خزانے ؛ ان سب کے باوجود ناول کی فضا میں رومان کی چاشنی اور اداسی ایسے گھلی ہے کہ سلمی جی پل صراط جیسے مشکل موضوع سے پوری طرح انصاف کرتے سہولت سے گزر گئیں، یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جسے پھر سے پڑھنے کی آرزو ہے مجھے۔ اسی طرح قسط وار یہ میرا گلگت بلتستان پڑھا۔

تصویر کے رنگ گہرے ہونے لگے، سلمی اعوان کی شخصیت کا بہت سا رعب مجھ پہ قائم ہو گیا اور میں نے چپکے سے انھیں اپنی بنائی اس فہرست میں داخل کر لیا جن لوگوں سے ملنے کی مجھے آرزو تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی سیمیں کرن کا جنم نہیں ہوا تھا، سادہ سی خاموش طبع ایک شرمیلی، روایات کی باغی سمیرہ اپنے باپ کے گھر میں تعلیمی مدارج سے گزر رہی تھی اور سلمی اعوان کی مختلف تصویریں بنایا کرتی تھی۔ اس تصویر میں ایک اونچا سا جوڑا بنائے نفاست سے ساڑھی باندھے ایک ایسی خاتون کا تصور آتا تھا جو ہر فکر سے آزاد دنیا دریافت کرتی پھرتی تھی۔

اب اس داستان کے کچھ ورق جلدی سے پلٹتے ہیں، ادبی دنیا میں داخلے کے بعد یہ تو ممکن نہیں تھا کہ سلمی اعوان کی تحاریر سے واقفیت نہ ہوتی، مختلف رسائل میں ان کے افسانے اور مضامین پڑھنے کو ملتے جن میں ان کے اسفار کی داستانیں اور تجربوں کی چاشنی گھلی ہوتی، یہ قدر ان کی مستنصر حسین تارڑ سے مشترک تھی اور ایک اور چیز میں وہ دونوں مشترک ہیں کہ دونوں آوارہ گرد ہیں اور لکھتے سمے اپنی معلومات کے خزانے سے تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ بڑی سہولت سے اس نازک مقام سے گزر جاتے ہیں۔

ان کے کئی افسانوں نے متاثر کیا جن میں ان کی آپ بیتی کی جھلک نمایاں تھی۔
پھر پتہ چلا کہ مصری سفارت خانے نے ان کے مصر کے سفر نامے کے حوالے سے تقریب منعقد کی ہے۔

لیجیے تصویر میں ایک رنگ اور نمایاں ہو گیا، دل میں سوچا ضرور کسی سفیر کی بگڑی ہوئی بیگم صاحبہ ہیں جو موج مستی میں ساری دنیا گھومتی پھرتی ہیں، کبھی روس ہوتی ہیں، کبھی شام، کبھی مصر اور کبھی پاکستان میں گھومتی پھرتی ہیں یقیناً مزاج بھی ایسے ہی بگڑے ہوئے ہوں گے بس پھر ہمت ہی نہیں ہوئی رابطہ کرنے کی، بس یہ میرے مزاج کی ایک گرہ ہے، شرمیلا پن ہے کہ بڑے لوگوں سے روابط کرنے میں ایک جھجک ہوتی ہے اور اگر دوران گفتگو یہ احساس ہو جائے کہ عظمت خبط میں مبتلا شخص سامنے ہے تو پھر روابط کو مزید محدود کر دیتی ہوں۔

لیکن اس کسی اچھے روز جانے کیسے ہمت کر لی اور سلمی آپا سے فیس بک پہ رابطہ ہوا اور فیس بک بھی کیا چیز ہے۔ حوصلہ افزا جواب نے فون کی ہمت دے ڈالی، آواز سن کر ایک کرنٹ کا جھٹکا لگا، مانو جیسے سچ میں لہجے میں کسی نے شہد گھول رکھا ہو، سلمی آپا نے فوراً اپنا ناول تنہا بھیجا اور میں نے اپنا افسانوی مجموعہ۔

ناول تنہا مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک بہت جاندار تحریر ہے کہ سلمی اعوان ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتی رہی ہیں اور حالات کی سنگینی کو خود جھیلا ہے مگر اپنے مخصوص انداز میں وہ رومان کی چاشنی کے ساتھ بہت کچھ کہہ گئی ہیں۔

جب میرا افسانوی مجموعہ بات کہی نہیں گئی آیا تو ان سے گزارش کی کہ آپ تشریف لائیں بک فیئر پہ اس کی تقریب رونمائی ہوئی اور وہ اپنی یار غار نیلم احمد بشیر کے ساتھ آ گئیں۔ دو سہیلیاں سادہ سی خوش اخلاق، خوش مزاج ؛جنھیں گل نوخیز اختر دو لڑکیاں کہ کر چھیڑتے رہے۔

یہ پہلی ملاقات تھی میری سلمی اعوان سے، دیکھا تو بہت سادہ سی عوامی حلیے والی ایک باوقار خاتون سامنے کھڑی تھی۔ دل میں اعتراف کیا کہ اس سادہ سے حلیے والی عورت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کتنا علم اور معلومات کا جہان اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور مختلف اسفار کے حیران کن تجربوں سے گزری ہے۔ اس عورت نے تو خود پہ ایک سادگی محبت اور عاجزی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اپنی ساری چمک دمک چھپا رکھی ہے کہ کوئی جان ہی نہ پائے کہ اس نے علم و دانش کے کتنے گوہر و جواہر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، مختصر سی ملاقات اور سلمی اعوان جو جگت آپا ہیں جن کو محبت و احترام سے بوڑھے بھی آپا کہتے ہیں، اپنی چھب دکھلائے غائب ہو گئیں۔

پھر کبھی کبھار ان کے ساتھ محبت بھری گفتگو ہو جاتی تھی اور وہ ہمیشہ کہتیں سیمیں تم آؤ کوئی پروگرام رکھو کسی نشست میں اکٹھے بیٹھ کر باتیں ہوں گی اور دقاعی چعد اک میں ہوں کہ جسے گھر داری کسی کمبل کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ اس دورانیے میں ان کی تحریر سے رابطہ رہا جو ان کی لیاقت، ذہانت اور تخلیقی اپچ کی دھاک بٹھاتا ہے۔

آپا نے بیٹی کی شادی پہ محبت و مان سے مجھے کہا ”سیمیں مجھے ضرور بلانا“ میں تو خوشی سے نہال ہو گئی کارڈ جس روز بانٹنے تھے، بہت تھکاوٹ بھرا دن تھا پژمردگی طاری تھی بیسیوں کام نبٹائے کہ بیٹے کے حکم تھا رکنا کسی صورت نہیں واپسی آج ہی ہوگی۔ تھکاوٹ سے یہ حال کہ بھوک کے باوجود نوالہ اندر نہیں جا رہا تھا۔ سلمی اعوان کے وسیع و عریض بنگلے پہ پہنچے۔ آپا نے خود باہر آ کر استقبال کیا اور شکل دیکھتے ہی کہنے لگیں ”لو میرے بچے پہلے تم کھانا کھاؤ، چائے پیو، بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو“ ۔ میرے منع کرنے کے باوجود، خود کچن میں جاکر میڈ سے تازہ سیب کا جوس بنوایا، وہ جوس، وہ مامتا، وہ خیال ؛پہلی بار دل کیا کہ اپنی ماں کے بعد اگر کسی کو کہ سکوں کہ تم سراپا مامتا ہو تو وہ سلمی آپا ہیں۔

گھر آ کر سوچتی رہی کون ہے یہ سلمی اعوان! کسی ریشم کی اٹی جیسی، جس کی شخصیت کے کتنے رنگ ہیں اور ہر رنگ بڑا گوڑا اور بڑا پکا۔

اور اس بار لاہور یاترا میں میں نے جانے سے پہلے کہا ”آپا میں نے آپ کے پاس آنا ہے وقت گزارنا ہے آپ کو سننا ہے پوچھنا ہے آپ کے مختلف تجربوں کی بابت“ ۔

وقت معین پہ طے یہ تھا کہ رابعہ رحمن، یونس بھائی، جمیل احمد عدیل، ہم سب سلمی آپا کی طرف اکٹھے ہوں گے اور اس غیر رسمی نشست میں ایک صحت مند مکالمہ ہو گا لیکن عین اسی شام آرٹیکل رائٹر سرفراز سید صاحب کی کتاب کی رونمائی پہ بہت اصرار سے انہیں مدعو کیا گیا تھا تو مجھے انھوں نے محبت و مان سے کہا ”سیمیں تم تو میری بچی ہو تم اور یونس میرے ساتھ چلو تمھیں اچھا لگے گا، تمھاری ملاقات بہت سے لوگوں سے ہو جائے گی تم آتی جاتی تو کہیں ہو نہیں، ہم ایک دو گھنٹے گپ شپ کریں گے اور کچھ دیر کے لئے وہاں بھی حاضری لگا لیں گے۔“

رابعہ رحمان تو ایک نجی تقریب کی وجہ سے آ نہیں سکیں۔ اب سلمی آپا کو فکر لاحق ہے کہ جمیل سے کسی طرح رابطہ کروا دو، ہائے وہ بیچارہ بچہ کتنی دور سے آئے گا اور دو پل کو بیٹھ نہ پائے، میں اس سے خود معذرت کر لوں۔ بہت بار تسلی کروائی کہ آپا رابعہ نے میسج کر دیا تھا، میری بات بھی ہو گئی ہے، مگر آپا ہیں کہ فکر میں ہلکان ہیں۔ اس دن میں ایک عمدہ میزبان سے ملی۔ میں اور یونس بھائی پہنچے، پر تکلف چائے کا اہتمام تھا جو کھانے کی احتیاج سے بے نیاز کردے۔ خاص طور پر بہت ہی لذیذ اور عمدہ حلیم بنوائی گئی تھی جسے گرم گرم پیش کیا گیا۔ کبھی ہماری میزبانی اور کبھی ادھر ادھر بھاگتی دوڑتی میرے ڈرائیور کی میزبانی میں متفکر۔ بالکل سادہ سے درویشوں والے حلیے میں پھرتی ایک گھریلو عورت مگر جس کی ہر بات میں دانش کے موتی لڑھکتے تھے۔

ایرج مبارک صاحب کے دولت کدے پہ تقریب میں جانے سے پہلے میرے ہاتھ میں ایک نازک سا نفیس چینی کا جیول باکس تھما دیا، چپکے سے سوچا میں نے یہ عورت نسوانی آرائش کی ضرورتوں سے ناآشنا نہیں ہے۔ تقریب میں سلمی آپا کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کئی شناسا چہرے تھے جیسے ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ اور ڈاکٹر غافر شہزاد۔ یہاں یہ سادہ سی عورت اپنے اسی سادہ سے حلیے میں کرسی صدارت پہ جا بیٹھی اور مجھے پھر سوچ میں مبتلا کر گئی۔

اور گھر واپس آ کر آج کل ان کی نئی دو کتب ”مجھے فکر جہاں کیوں ہو“ اور جو دیکھا، جو سنا، جو بیتا ”زیر مطالعہ ہیں۔ یہ کالموں کی کتابیں ہیں۔ پوربو پاکستان پہ دو کالمز پڑھے اور احساس ہوا کہ تنہا جیسا ناول کیسے لکھا گیا۔ بغداد تمھاری زمین پہ کب امن اترے گا، ایک زندہ رہنے والی تحریر۔ پاکستان کی سیاست پہ عمران خان پہ تنقید کرتے جو نچوڑ نکالا ہے وہی حل ہے ہمارے مسئلوں کا، بالغ پختہ سوچ کا زاویہ۔

میں خود سے پوچھتی ہوں کہ کیا ہے یہ سلمی اعوان، کئی ناولوں اور سفر ناموں کی مصنفہ۔ آپ میں سے جانے کتنے لوگوں نے رنگدار ریشم کی اٹی دیکھی ہے! اس ریشم سے مختلف رنگ کے پیراہن اور پھول بوٹے بنا کرتے تھے تو بس سلمی اعوان بھی ریشم کی وہ اٹی ہے وہ سیپ اور جیول باکس ہے جس میں علم و دانش کے بہت سے موتی چھپے ہیں اور سلمی اعوان ان موتیوں کو چھپا کر رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ ان جواہر سے مستفیذ ہونے کے لئے ایک نہیں بہت سی نشستیں درکار ہیں جب کہ اس نے علم کے یہ موتی اپنی کتابوں میں بڑی چابک دستی سے پروئے ہیں اب وہ بے نیاز ہیں کہ کوئی پڑھ کر اس چمک سے آنکھیں خیرہ کرے نہ کرے وہ اپنی سادگی و درویشی چھپا کر رکھے گی۔ اس کا انحصار ہماری استعداد پر ہے کہ ہم اس سے کس قدر استفادہ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments