کھلی آنکھوں کا خواب (دسواں حصہ)
آل رسول ﷺ کے در پر :
یہاں سے آگے بڑھے تو برآمدے سے ہوتے ہوئے ایک کشادہ ہال میں داخل ہوئے۔ سرخ قالین بچھے ہوئے اور ان پر بیٹھی خواتین مصروف عبادت نظر آئیں۔ ہم آگے بڑھے اور عائشہ مجھے مسجد کی محراب تک لے گئی۔ مسجد کوفہ کی وہ محراب جہاں شقی القلب ابن ملجم نے انیس رمضان المبارک فجر کی نماز کے دوران زہر آلود تلوار سے حضرت علی علیہ السلام کو زخمی کر دیا تھا۔
علی نے بھی مرے نام خدا کیا نام پایا ہے
خدا کے گھر سے کیا اعزاز کیا اکرام پایا ہے
ہوئی کعبہ میں پیدائش، شہادت پائی مسجد میں
عجب آغاز پایا تھا، عجب انجام پایا ہے
علی کی شان، بزرگی اور فضیلت کوئی کیسے بیان کرسکے کہ جو جنم لے تو کعبہ میں، پرورش پائے تو زیرسایہ خدیجہ اور رسول امم کے۔ جس کو بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔
حیدر کرار، فاتح خیبر
میدان جنگ ہو یا میدان علم ادب بیک وقت دونوں کے بے نظیر شہسوار۔ تلوار اٹھائی تو ہزاروں جوانوں پر بھاری۔ عمر ابن ودکی گردن اڑا کر پھینکی تو حضور ﷺ نے فرمایا، علی کی یہ ایک نیکی تمام انسانوں اور جنوں کی عبادت سے افضل ہے۔
قلم اٹھائیں تو نہج البلاغہ جیسی معرکتہ الآرا کتاب لکھ ڈالیں۔ جو باب علم ہو اور جس کے علم کی وسعت کا یہ حال ہو کہ فرمائے کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھوں تو ستر اونٹوں پر نہ سمائے۔ جو کہے کہ جتنا میرا علم تھا، اتنا کسی نے پوچھا نہیں۔
شب ہجرت نبی کے بستر پر سونے والے، مواخات مدینہ میں آپ نے علی کو بھائی بنایا۔ متعدد احادیث علی کی عظمت، بزرگی اور فضیلت کی دلیل ہیں۔ علی کے فضائل احاطہ تحریر میں نہیں آسکتے۔
بہلول دانا ایک دن دریا کے کنارے پانی کا گلاس بار بار بھر رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا دریا کو گلاس میں بند کر رہا ہوں۔ یہ سن کر سوال کرنے والے نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا پاگل ہو گئے ہو، بھلا دریا کو گلاس میں بند کیا جاسکتا ہے۔ بہلول دانا نے کہا یہی تو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ دریا گلاس میں نہیں سما سکتا تو اتنا بڑا علی کیسے کسی کی سمجھ میں آ سکتا ہے!
جالیوں کے اندر جھانک کر وہ جگہ دیکھی، جہاں ملعون ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے وار کیا تھا۔ اس جگہ روشنیوں کی چکاچوند اور نوٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ درہم و دینار، پونڈ اور ڈالر ہر طرح کے نوٹ تھے۔ وہ جنہوں نے دنیا کے مال و زر پر فقر کو ترجیح دی۔
ایک دفعہ قصاب نے پیش کش کی کہ خیر ہے گوشت قرض لے جائیں۔ آپ نے جواب دیا یہ قرض میں اپنے پیٹ سے کیوں نہ کرلوں۔ جن کا فرمان ہے کہ دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے۔ اس کا ظاہر سانپ کی جلد کی طرح خوشنما اور خوب صورت ہے اور اس کے اندر زہر بھرا ہوا ہے۔
اللہ کے چاہنے والوں کی اس دنیا میں بھی کیا شان ہے۔ زر و جواہر اور ایک خلقت کے دلوں میں بسنے والے، آنسوؤں کے نذرانے اور محبت کے خزانے لیے ایک ہجوم عاشقاں محو دعا اور گریہ کناں دکھائی دیا۔
میں باب علم کے در پر کھڑی جالی پکڑے دعائیں کرتی رہی۔ یہاں کھڑا ہونا بھی کیسی خوش بختی اور اللہ کا فضل تھا۔ پیچھے کھڑی خاتون منتظر تھی۔ سو جالی سے ہاتھ ہٹا کر اسے جگہ دی اور ہال میں رکھے اس منبر کو دیکھنے لگی۔ لکڑی کا بنا اونچا خوب صورت منبر، جہاں بیٹھ کر علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ وقت کی حیثیت سے خطبہ دیا کرتے اور مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ تادیر اس منبر کو دیکھتی اور ان کے عادلانہ اور حکیمانہ فیصلوں کو یاد کرتی رہی۔ پھر نفل پڑھ کر دعائیں کیں۔ شکرانے کے سجدے کیے اور باہر آ کر پھر وہیل چیئر پر بیٹھ گئی۔
اس وسیع و عریض مسجد کے حسین در و دیوار پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے باہر کی طرف جاتے جاتے عائشہ سے کہا کہ بی بی فاطمہ کا گھر تو دکھایا نہیں۔ یہ سن کر احمد نے کہا اس وقت تو بند ہوجاتا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں۔ وہ فون کرنے لگے اور میں دعائیں کہ یہ گھر نہ دیکھا تو حسرت اور تشنگی رہے گی۔ تھوڑی دیر بعد عائشہ نے کہا چلیں امی گھر تو بند ہے مگر ہمارے لئے کھول دیں گے۔ تھوڑا سا پیدل چلنا پڑے گا۔ چل لیں گی نا۔ میں نے کہا کیوں نہیں لو اپنے ٹریک کے تو دو دو چکر لگاتی ہوں، یہاں توسر کے بل جانے کو تیار ہوں۔
مسجد سے نکل کر تھوڑا سا راستہ بازار میں سے گزر کر طے کیا تو بائیں ہاتھ پر ایک چاردیواری کے اندر گئے۔ یہاں متعلقہ افراد اپنی معیت میں ہمیں لے کر اندر داخل ہوئے۔ وہ ہماری رہنمائی کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ انھوں نے ہاتھوں میں ایمرجنسی لائٹس پکڑی ہوئی تھیں کیونکہ گھر میں تعمیر و تزئین کا کام ہو رہا تھا۔ بجلی بند تھی اور صحن میں جگہ جگہ تعمیراتی سامان بکھرا پڑا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر وہ کنواں تھا جس کو امیر المؤمنین نے اپنے ہاتھوں سے کھودا تھا۔
ان کے ہاتھ میں پکڑے ٹارچ کی روشنی میں جھانک کر دیکھا۔ گہرا کنواں پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس پانی کو شفائی پانی سمجھا جاتا ہے ۔ زائرین اس کو پیتے بھی ہیں اور بوتلوں میں بھر کر ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ تھوڑا سا اور آگے بڑھے تو ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ بتایا گیا کہ اکیس رمضان المبارک کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس جگہ غسل دیا گیا تھا۔ بائیں ہاتھ پر ایک اور چھوٹا کمرہ تھا، یہاں انہیں کفنایا گیا تھا۔
رات کا وقت، اندھیرا جگہ جگہ سامان بکھرا ہوا اور یہ دو کمرے دیکھ کر دل غمگین اور اداس ہو گیا۔ اس سے متصل ایک اور بہت چھوٹا سا کمرہ تھا جو حسنین کر یمین کا تھا جہاں وہ مطالعہ اور عبادت کیا کرتے تھے۔ وہاں پر کتابوں کے لئے طاق بنے ہوئے تھے۔ یہ کمرہ دیکھ کر سوچا یہ اسلامی سلطنت کے امیرالمؤمنین اور خلیفہ وقت کے شہزادوں کا کمرہ ہے۔ صحن کے اک طرف خواتین کے پردہ لگے حجرے تھے کہ ان کی آواز باہر نہ جائے۔ اللہ اللہ آج کس کے گھر میں کھڑی ہوں۔ علم و عمل کے مہر عالم تاب و مہتاب جن کے علم و عمل کی کرنیں تاقیامت اجالا کرتی رہیں گی۔ راستہ دکھاتی رہیں گی۔ علی اور فاطمہ دنیا کا سب سے افضل جوڑا۔ بقول شخصے دلہن رسول کے گھر کی تو دولہا خدا کے گھرکا تھا۔ پھر حسنین کر یمین ہمہ خانہ آفتاب است
فاطمہ جگر گوشۂ رسول لقب جس کے طاہرہ، زہرا، بتول، طیبہ، منزہ چکی پیس پیس کر ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے۔ چکی اور ساتھ ساتھ تلاوت قرآن بھی جاری رہتی۔ جو رات کے نوافل کے لئے کھڑی ہوتیں تو جذب و شوق کا یہ عالم ہوتا کہ حسرت سے کہتیں یہ رات اتنی جلدی کیوں ختم ہو گئی۔
ایک دفعہ اللہ اور اللہ کے محبوب کے محبوب اس جوڑے نے منت کے تین روزے رکھے۔ عین افطار کے وقت سائل آ گیا۔ روٹی اٹھا کر اسے دے دی اور خود پانی پی کر روزہ رکھ لیا۔ دوسرے دن چکی پیس کر روٹی بنائی۔ ابھی لقمہ نہیں توڑا تھا کہ پھر مانگنے والے نے صدا لگائی۔ روٹی اسے دے کر پانی سے افطار کیا۔ تیسری افطاری پربھی ایسا ہی ہوا جس پر قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ وہ لوگ جو اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہونے کو سینکڑوں ہوئیں دنیا میں عورتیں
ایثار فاطمہ کی نہ لیکن ملی مثال
اپنی دوست ڈاکٹر ثروت رضوی کی کتاب باب علم پر دستک پڑھ کر اسے لکھا تھا کہ باب علم پر دستک ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ میں نے خود کو کبھی دستک کے قابل ہی نہیں جانا۔ اور آج صحن فاطمہ میں کھڑی سراپا سپاس اور سراپا شکر تھی اور دل سے دعائیہ صدائیں اٹھنے لگیں کہ یا اللہ تو مجھ کم علم، کم عمل کو ایسے سخیوں کے در پر لے آیا ہے جن کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔ تو مجھے ایسا علم نافع عطا کر کہ جو لکھوں وہ صدقۂ جاریہ بنے۔ بے ریا عمل جو قبول ہو جائے اور تیرے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوجائیں۔ ان خاموش صداؤں کو یا میں سن رہی تھی یاوہ جو دل کی صدائیں سننے پر قادر ہے۔
چلیں نا امی عائشہ کی آواز نے چونکا دیا۔
شمع بدست راہنما نے دوسری طرف کمرے کی طرف رہنمائی کی اور وہاں سے گزر کر باہر نکلے تو دیکھا، یہ گھر کا مرکزی دروازہ تھا۔ لکڑی کا خوبصورت دروازہ جسے ہمارے نکلتے ہی بند کر دیا گیا۔ کچھ زائرین دروازے کے آگے دیوار سے لگے دعائیں مانگ رہے تھے۔
احمد نے کہا آنٹی اس طرف آئیں۔ ہم دیوار کے ساتھ چلنے لگے۔ چند قدم چلے تو قد آدم دیوار کے دوسری طرف جھانک کر اشارہ کیا کہ یہ دیکھیں۔ یہاں ابن زیاد کا محل تھا جس کا اب نام و نشاں باقی نہیں اور یہ زمین مسلسل دھنستی چلی جا رہی ہے۔ ہم سب نے دیکھا کہ وہاں کی زمین باقی زمین کی نسبت بیٹھی ہوئی تھی۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ دنیا میں ہی اپنے عاشقوں کا بلند مقام، قدرومنزلت اور ظالموں کا عبرت ناک انجام دکھا دیتا ہے کہ لو دیکھو کس راستے پر چلنا ہے۔
دیوار کے ساتھ ساتھ ہم چلتے گئے تو ایک چھوٹے سے گیٹ کے پاس پہنچ کر احمد نے بتایا کہ امیر المؤمنین اس راستے سے مسجد کوفہ نماز کے لئے جایا کرتے تھے۔ مسجد کوفہ کا ایک دروازہ اس طرف کھلتا ہے۔ دیوار کے ساتھ کھجوروں سے لدے ہوئے درخت تھے۔ پگڈنڈی جتنا راستہ اور زمین تو صحیح تھی جب کہ چند قدم آگے محل کی زمین بہت نیچے بیٹھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔
یہ اہل بیت کی حقانیت اور یزید کی ملعونیت کی روشن دلیل تھی۔ یوں توان گنت شعرا نے بلاتخصیص مذہب اہل بیت کی شان میں اشعار کہے ہیں۔ علامہ اقبال نے اہل بیت سے جس محبت کا اظہار کیا ہے، وہ ایسا شاندار کہ ہے بہت سے اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ خاتون جنت زہرا بتول کی شان میں یہ نظم میری بہت پسندیدہ ہے۔ مدحت جناب فاطمہ الزہرہ بزبان علامہ محمد اقبال:
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
بانوی آن تاجدار ”ہل اتے“
مرتضی مشکل گشا شیر خدا
مادر آن مرکز پرکار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی
ترجمہ: حضرت مریم کی ایک نسبت کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہیں۔
بی بی فاطمہ کی تین نسبتیں ہیں۔
نور چشم رحمت العالمین جو اولین و آخرین کے امام ہیں۔
زوجہ محترمہ مشکل کشا، شیر خدا
3عشق کی پرکار کا مرکز امام حسین ہیں اور عشق کے پرکار کی مرکز کی ماں ہیں۔
شریعت کی زنجیر نہ ہوتی اور آپ ﷺ کے فرمان کا پاس نہ ہوتا تو تیری قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا اور قبر کا طواف کرتا۔
صل اللہ علیہ و آلہ واصحابہ وصلعم
سبحان اللہ سبحان اللہ
- یادوں کی پٹاری سے ایک پچاس سالہ پرانا خط - 17/04/2025
- بہار آئی کہ جیسے یک بار کھل اٹھے ہیں گلاب سارے - 14/04/2025
- ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم - 25/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).