آتشؔ، مومنؔ اور غالب کا انداز بیاں اور
استاد شعر گوئی چھوڑ چکے تھے مگر سیکڑوں شاگرد ان کے ارد گرد جمع رہتے اور ان سے اصلاح لینے کے لئے بیتاب رہتے۔ نجانے ایک دن کچھ منچلے شاگردوں کو کیا سوجھی کہ استاد محترم سے غزل کہنے کی فرمائش کرنے لگے۔ استاد نے بہت منع کیا کہ یہ آپ جیسے نوجوانوں کا دور ہے مگر شاگردوں کا اصرار بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ شاید ان کا گمان ہو کہ استاد شعر گوئی کی استعداد کھو چکے ہیں۔ جب اصرار حد سے بڑھا تو استاد نے فی البدیہہ غزل کہنا شروع کی۔
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
یہ حیدر علی آتشؔ تھے مرزا اسداللہ خان غالبؔ سے سینئر مگر ہم عصر۔ آتشؔ کی شاعری میں جوش ہے، ولولہ ہے، حرارت ہے، احساسات اور جذبات کا طوفان ہے۔ اور کئی جگہ مشکل پسندی انہیں غالبؔ کے ہی ہم پلہ کر دیتی ہے۔
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
————–
لیکن غالبؔ کے علاوہ ایک اور شاعر اپنی خوبصورت اور رومانوی شاعری میں آتشؔ سے کسی طرح کم نہیں۔ وہ ہیں مومن خان مومنؔ۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطر مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
اگر آتشؔ میں جوش و خروش ہے تو مومنؔ کے شعروں میں شگفتگی، تازگی اور لطافت پائی جاتی ہے جس میں میر کے سوز اور سادگی کی آمیزش حسین امتزاج پیدا کرتی ہے۔
اس بت کے لیے میں ہوس حور سے گزرا
اس عشق خوش انجام کا آغاز تو دیکھو
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
یہ افسانہ ہے کہ حقیقت صرف ایک شعر پر غالب نے مومنؔ کو اپنا تمام کلام دینے کی پیشکش کر دی تھی۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
——–
جہاں آتشؔ کے کلام میں غالبؔ کا رنگ دکھائی دیتا ہے وہیں تصوف میں ان کی شاعری میں میر دردؔ کا رنگ ملتا ہے۔
یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
زمیں یاں کی چہارم آسماں ہے
روشن ہے روشن گر کی منزل
یہ آئنہ سکندر کا مکاں ہے
———-
ہوائے دور مے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
———–
آتشؔ اور مومنؔ دونوں کے کچھ اشعار آج بھی مروج ہیں اور ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
مومنؔ کے کلام میں میر تقی میرؔ کا رنگ نمایاں ہے۔ مومنؔ کی چھوٹی بحروں کی شاعری میں میر جیسی سادگی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔
خواجہ حیدر علی آتشؔ، ذوقؔ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ اور نابغہ روزگار مرزا اسداللہ خان غالبؔ ہم عصر ہیں۔ ایک ہی زمانے کے شاعروں میں ایک جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ اس ملک پر تاج برطانیہ کی حکومت پنجے گاڑ رہی تھی۔ بادشاہ صرف نام کا بادشاہ تھا کیونکہ اس کی حکومت صرف لال قلعہ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ملکی سیاست میں یہ ابتری کا دور تھا لیکن شعر و سخن کے لحاظ سے یہ سنہری دور تھا۔ اسی دور میں ادب عالیہ تحریر کیا گیا۔ فورٹ ولیم کالج میں زیادہ تر کام اردو نثر میں ہوا ہے۔ لیکن اسی دور میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنو نے نئے شعری ذوق کی بنیاد رکھی۔
آتشؔ اور مومنؔ نے غدر کے زمانے میں آنکھ کھولی۔ لیکن شعری قابلیت کے علاوہ قسمت نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا کہ باوجود اشوب دور کے، انہوں نے آسانی سے شعری مقام حاصل کر لیا۔
اس زمانے میں ساغر و مینا اور عشق بتاں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جیسے کہ غالبؔ نے کہا ہے
ہرچند کے ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے مینا و ساغر کہے بغیر
اور مومنؔ کہتے ہیں
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
- احساس زیاں جاتا رہا - 19/04/2025
- شام ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے - 12/04/2025
- جنوں میں جتنی بھی گزری۔ - 26/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).