جڑانوالہ: کیا روٹین کی پرزور مذمت ہی کافی ہے؟
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے آج تک اپنی موذی مسائل سے باہر نہیں نکل سکا۔ کہتے ہیں اگر بنیادوں میں نا انصافی کی اینٹیں لگ جائیں تو پوری عمارت لاقانونیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ آج سانحہ جڑانوالہ کو رونما ہوئے سات دن ہو گئے ہیں لیکن مسائل وہیں جوں کے توں کھڑے ہیں۔ کون نہیں یہاں آیا حکومتی نمائندوں سے لے کر سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا تک ہر آنکھ اشک بار ہوئی ہے۔ ہر طرف دکھ تکلیف، درد، رنج اور ویرانی نظر آتی ہے۔ جڑانوالہ کا واقعہ شاید پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے منحوس واقعہ ہے جس نے پاکستانی تاریخ کے منہ پر ایک بار پھر کالک مل دی ہے۔ پہلے سے بدنام ملک ایک بار پھر بین الا اقوامی سطح پر ذلیل ہو گیا ہے اور اس میں سب سے زیادہ کردار بھی ہمارے معاشرہ کی انتہاپسند سوچ کا ہی ہے۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود آج بھی ہم جیسے تقسیم کے وقت تھا کہ ابھی تک وہی کے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہماری ہجرت ہوئی تھی۔ جب ہمارے قافلے لوٹے گئے تھی۔ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت تار تار ہوئیں تھی۔ ہماری بستیاں اور گھر جلائے گئے تھے۔ ہم پر کیا کیا نہ ظلم ڈھائے گئے۔ یعنی کچھ نہیں بدلا اگر کچھ بدلا ہے تو وہ کلینڈر پر تاریخ بدلی ہے، وہ سنتالیس تھا اور آج دو ہزار تئیس ہے۔ وہ بھی کبھی اپنے تھے یہ بھی کبھی اپنے تھے۔
پس اس ستر پچھتر سالوں میں اگر کچھ ہوا ہے تو وہ محض مذمت تھی پر زور مذمت۔ یعنی جب جب ہم سے مختلف عقیدہ رکھنوں والوں کو بسوں سے نکال کر گولیاں ماری گئیں تو ہم نے پر روز مذمت کی، جب احمدیوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا تو ہم نے پر زور مذمت کی، جب امام بار گاہوں پر حملے ہوئے تو ہم نے پر زور مذمت کی۔ جب لال شہباز قلندر پر دہشت گردی کی گئی تو ہم نے پر زور مذمت کی۔ جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کو دن دیہاڑے شہید کیا گیا تو ہم نے پر زور مذمت کی۔ جب شانتی نگر میں انتہاپسند مسلمانوں نے حملہ کر کے پورے کا پورا گاؤں ہی جلا دیا تو ہم نے پر زور مذمت کی، جب گوجرہ بستی کو جلا دیا گیا تو پرزور مذمت کی۔ اب جڑانوالہ پر بلوائیوں نے سب کچھ تہس نہس کر دیا تو پھر بھی ہم نے مذمت بلکہ پر زور مذمت ہی کی۔ اور بیا نات پر بیانات داغے کہ نہ اس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ آئین و قانون۔ بلکہ یہ ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہمارے دین میں تو اس انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں
بلاشبہ ایسا ہی ہو گا۔ یعنی، مذمتیں، صفائیاں، معذرتیں اور نا جانے کیا ہے۔ بات یہاں ختم، پیسہ ہضم اور پھر ایک نیا مسئلہ اور بات کرنے کے لیے، کچھ لکھنے کے لیے ٹی آر پی کے لیے نیا کانٹینٹ۔
یہ کھیل دہائیوں سے کمزور طبقات کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ دنیا میں جرم ہوتے ہیں ایسا نہیں دنیا جرائم سے خالی ہے لیکن وہاں انصاف اور عدالتیں کام کرتی ہے۔ اگر دنیا اتنی بری ہو تو پاکستان سے لاکھوں لوگ بھاگ کو ان ملکوں میں کیوں جائیں جہاں شرعی تعلیمات و قانون موجود نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ خدا کی تعلیمات کپڑے میں لپٹی کتابوں اور بازوں پر لکھے تعویزوں سے نہیں بلکہ اپنی روح سے سمجھنے اور اس پر عملی طور پر ایمان لانے سے ہوتی ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ پر زور مذمت کے بعد فوری حکمت عملی کیا ہے؟ نہیں بتایا گیا۔ ہو سکتا اس دفعہ کوئی کنکریٹ حل نکل جائے ویسے اس کا دیر پا حل تو مذہبی تعلیمات سے زیادہ مذہبی تربیت پر ہے بلکہ تربیت پر ہی ہے۔ اب الف انار کی بجائے الف انسانیت پڑھانا پڑے گی نفرت کی جگہ محبت سکھانا پڑے گی۔ کیونکہ ہمارے بچوں کو اگر سومنات کے مندر گرانے کے درس دیے جائیں گے تو چرچ جلانا ثواب ہی سمجھا جائے گا۔ سرکار مشاہیر بدلنے ہوں گے۔ حملہ آوار نہیں مسیحا ہیرو بتانے ہوں گے۔ ارطغرل نہیں ایدھی پڑھانا ہو گا۔ غزوے نہیں طائف بتانا ہو گا۔ ورنہ پھر وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے پھر وہی مذمتیں بلکہ پر زور مذمتیں ہوں گی۔
جڑانوالہ کے متاثرین کے گھر نہیں دل جلے ہیں، سامان بن جائے گا گھر تعمیر ہوجائیں گے۔ وہ بھروسا اور اعتبار کہاں سے لائیں۔ وہ خوشی جو اب ڈر میں بدل چکی ہے وہ کہاں سے لائیں۔ بے شک بہت سے مسلمانوں نے آگے بڑھ کی ان کی املاک اور جانیں بچائیں لیکن مجموعی تاثر بدلنا اتنا آسان نہیں۔ وہ تو پہلے ہی ہارے ہوئے لوگ تھے اگر تمھارے طاقت دکھانے کا طریقہ کمزوروں پر ہے تو تم سے بڑا بزدل نہیں دیکھا۔ زندہ تو زندہ قبرستانوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس چودہ سال سے بائیس سال کے بچوں اور نوجوانوں نے یہ سب سیکھا کہاں سے۔ پڑھا کہاں سے۔ تربیت کہاں سے لی ہوگی۔ جب دین تو اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا تو پھر دین مخالف عملی پر نوحہ کنائی کیوں نہیں کی گئی۔ اس پر سرکار اور علما حق کو سر جوڑنا ہو گا کیونکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جو یقیناً حل طلب بھی۔ اگر آج اس پر فوری اور سنجیدہ حکمت عملی نہیں بنائی تو پھر محض پرزور مزاحمتیں ہی رہ جائیں گی تو ماضی تے حال تک ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان پائندہ باد۔
- دشمن کو گلے لگائیے - 16/01/2025
- موسمی ایماندار - 07/01/2025
- بازاری عورت - 26/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).