محمد طارق کی کتاب: جمہوریت کیوں اور کیسے؟
میرے پاس یہ کتاب مطالعہ اور تبصرے کے لیے آئی تو موضوع دیکھ کر لگا کہ ایک خشک قسم کی کتاب ہو گی اور شاید اسے پڑھنے میں دل نہ لگے لیکن یہ معلوماتی ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی ہے۔
مصنف نے سیاست کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ مل جل کر گروپ کی شکل میں کسی کام کو پایہ انجام تک پہنچایا جائے۔ جیسے ایک فٹ بال ٹیم میں مختلف کھلاڑی ہوتے ہیں لیکن ان سب کا ہدف بازی جیتنا ہوتا ہے۔ ہدف حاصل کرنے کے لیے کھلاڑیوں کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ اور کھیل کے کچھ اصول بھی ہوتے ہیں۔
جمہوریت کیا ہے؟
مصنف نے اس سوال کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جمہوریت کی تاریخ اور اس کی نش و نما کیسے ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ’کسی بھی علاقہ یا ملک میں حکمرانوں کی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک کے لوگ حکومتی اتھارٹی کو قبول نہیں کریں گے‘
محمد طارق یونین کاونسل کو جمہوریت کے لیے ایک موثر ذریعہ بتاتے ہیں۔
جمہوریت کیوں؟
مصنف نے وضاحت سے عام فہم زبان میں جمہوریت کی افادیت اور اس کے ثمرات بتاتے ہیں کہ جمہوریت میں انسانی حقوق ہیں۔ جس میں آزادی رائے، معلومات کا حق، تحریر اور تنقید کا حق اور رائے دہی کا حق شامل ہیں۔ ان حقوق کی فراہمی کے بغیر معاشرہ بے سکون ہی رہے گا۔ مصنف جہاں شہریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں وہیں وہ انہیں ان کے فرائض سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوری نظام اطمینان بخش نہ ہونے کے باوجود دنیا کو قبول ہے۔
جو ممالک دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور لوگ خوشحال ہیں، مصنف اس کی وجہ جمہوریت بتاتے ہیں۔ وہ خوشحال ممالک کی مثال بھی دیتے ہیں جہاں جمہوریت ہے۔ اس کے برعکس ایک مثال بھارت کی دیتے ہیں جہاں جمہوریت تو ہے لیکن خوشحالی نہیں۔ دوسری مثال چین کی ہے جہاں خوشحالی تو ہے لیکن جمہوریت نہیں۔
ملکوں کی معاشیات پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ تیل اور معدنیات کی دریافت نے کئی ملکوں کے خوشحال بنا دیا۔ کچھ ملک تیل سے مالامال ہیں لیکن ان ملکوں میں نہ جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق۔ ضروری ہے کہ جمہوری ادارے اور این جی اوز مل کر ریاست کے کاموں پر نگاہ رکھیں۔ وہ مسلم ملکوں کی مثال دیتے ہیں کہیں جمہوریت ہے تو خوشحالی نہیں، خوشحالی ہے لیکن جمہوریت نہیں۔ وہ قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے دے کر بتاتے ہیں کہ اسلام ہمیشہ ایک جمہوری عمل اور رائے دہی کے حق میں بات کرتا ہے۔ وہ اسے المیہ گردانتے ہیں کہ مسلمانوں نے کوئی ہدایت نہیں لی۔
ان کہنا ہے کہ کرپٹ سیاستدان کم عقل اور ان پڑھ عوام کو ورغلا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا کم عقل لوگوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے؟
پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی بات کرتے ہیں کہ ان میں جمہوریت نہیں ہے۔ ووٹ پارٹی کو نہیں شخصیات کو دیا جاتا ہے۔ مورثی سیاست میں کبھی کوئی عام ورکر پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
اس بحث کے بعد محمد طارق نارویجین سیاست کا ذکر کرتے ہیں۔ جس کی انہیں بڑی جانکاری ہے کیونکہ وہ ناروے میں ہی رہتے ہیں۔ یہاں پارٹیوں میں باقاعدگی سے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ یہ پارٹیاں جب حکومت میں ہوں تو کام کرتی ہیں اور اپوزیشن میں ہوں تو حکومت پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا نام ان کا منشور، ممبرشپ کا طریقہ کار اور ان کا عمل سب تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
ایک بار وہ پھر پاکستان پر بات کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے امیدوار کیسے منتخب کریں، کس کو ٹکٹ دیا جائے، امیدوار کی نامزدگی کس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
پاکستانی ارطغرل، ناکام لانگ مارچ اور حقیقی آزادی پر بات کی۔ اس کے بعد پھر اسکنڈے نیویا کی طرف آئے اور بتایا کہ فلاحی ریاست کیسے کام کرتی۔ ملکوں کی ترقی کیسے ہو؟ نارڈک ماڈل کیا ہے اور کیسے اتنا کامیاب ہے۔ مزدور یونین، ٓآزاد اور فری مارکیٹ، ریاستی اور نجی تنظیموں کا آپس میں تعاون، پرائیویٹ سیکٹر۔ صنعت و زراعت۔ ٹیکس ہر موضوع کو بیان کیا۔
دیار غیر میں رہنے والے پاکستانی پاکستان کی دگرگوں حالت پر کڑھتے ہیں۔ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی بھی ہے۔ اپنے لیڈروں کو تجاویز بھی بھیجتے ہیں لیکن بقول مصنف کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں نے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ پی۔ ار۔ او۔ اس کی رجسٹریشن جلد ہی جرمنی میں ہو گی۔
ناشر۔ عکس پبلیکیشنز۔
دیباچہ۔ صحافی سلیم صافی
- مردوں کو عورتوں کے حقوق (فیمینزم) سے خوف کیوں آتا ہے؟ - 22/04/2025
- دیپ جلتے رہے: عفت نوید کی کتاب - 15/03/2025
- حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11) - 14/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).