ہماری کمائی محض کھوکھلی جذباتیت کے سوا کچھ نہیں
نفرت اور بھڑاس کسی پر بھی نہیں نکالنی چاہیے لیکن ہم مسلمانوں کا عمومی رویہ یہی ہے کہ ہم غیر مسلموں کے لیے پھر بھی نرم گوشہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے جس کا فرقہ ہم سے جدا ہے، ہم اس پر ہوئے ظلم کی مزاحمت تو کجا بلکہ اس پر ہوئے ظلم کو سراہتے ہیں۔ ہمیں فرقوں میں تقسیم در تقسیم کا نقصان یہ بھی پہنچا ہے کہ ہم اپنے آپ سے بچھڑ گئے۔ ہم نے اپنا مذہبی علم، جس پر سب کی اجارہ داری تھی اسے بھی تقسیم کر دیا۔
ہمیں حق بھی اپنا اپنا پسند اور طرہ یہ کہ آیات و احادیث میں سے اپنے اپنے مطلب کی چیزیں نکال کر باقی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ آپ ذرا اختلافی مسائل کی آیات پر ترجمے پڑھیے، تقریباً ہر ایک نے اپنے اپنے فرقوں کی نمائندہ سوچ کا اطلاق آیت پر کر دیا ہو گا۔ ترجمے میں یہ جھول صرف اختلافی مسائل پر ہے! اسی طرح ہر فرقے کی احادیث الگ ہیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ذخیرہ احادیث میں سے ہر ایک کو اس کی مرضی کی بات مل جاتی ہے۔
سب احادیث کے حوالوں سے ہی اپنے اپنے فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس سے بھی مزے کی بات یہ کہ ایک دوسرے کی احادیث کو دھڑلے سے مسترد بھی کر دیتے ہیں۔ ہم نے تو مشائخ اکابر سے یہ سنا اور پڑھا تھا کہ حدیث کا علم مسلمانوں کا وہ علم ہے جو عمل اور تواتر سے منتقل ہوا اور اس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہاں بھی اتنی کھچڑی بنا دی گئی ہے کہ اب آنے والی نسل مکمل طور پر اس سے لاتعلق ہو رہی ہے۔
حالانکہ اگر کتب احادیث کی اہمیت و افادیت ختم کر دی جائے تو ہمارے پاس مکمل تاریکی ہو۔ فروعی مسائل پر تو سمجھ آتا ہے کہ احادیث میں اختلاف یقیناً ہو سکتا ہے، لیکن یہاں تو بنیادی عقائد اور وہ احادیث جو خالص اس وقت کے حالات حاضرہ پر تھیں، ان پر بھی ہم تقسیم ہیں۔ پھر اجتہاد کا دروازہ بھی ہم نے بند کر دیا۔ ہمارے ہاں تو اب جمود بھی اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ بقول مولانا وحید الدین ”غالباً آخری تخلیقی کتاب جو مسلم دنیا پیش کر سکی وہ مقدمہ ابن خلدون ہے۔ اس کے بعد پچھلے چھ سو سال کے اندر جو کتابیں لکھی یا چھاپی گئیں ہیں وہ تقریباً سب کی سب روایتی اور تقلیدی ہیں“ ۔
المیہ یہ بھی ہے کہ پچھلی صدی اور رواں صدی میں جن مفکرین نے بشمول سرسید و اقبال کے جمود توڑنے کی کوشش کی۔ بالخصوص علامہ اقبال کہ جنہوں نے اجتہادی نوعیت کی کتب بھی لکھیں اور خود اس مقصد کے لیے سرتوڑ کوشش بھی کی، ہم نے ان سے کیا سیکھا؟ ہم نے حسب روایت علامہ کے کلام سے بھی چند چیزیں اپنی اپنی پسند کی نکال لیں اور باقی اور بیشتر کام کو دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی یا ان اکابر کو بھی اپنے زنگ آلود فتووں کی زد پر رکھا!
لہٰذا اب ہمارے پاس صرف بم دھماکے بچے ہیں یا کھوکھلی جذباتیت! علامہ اقبال کا میں نے تذکرہ کیا تو مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا جو شاید ہماری حالت کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔ یہ واقعہ علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال نے علامہ اقبال کی سوانح حیات ”زندہ رود“ میں لکھا ہے کہ ”حفیظ جالندھری کے بیان کے مطابق ایک روز کسی جلسے کو خطاب کرنے کے بعد اقبال ان کے ساتھ اندرون شہر کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے پیدل واپس آرہے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے اس لیے راستے میں جو کوئی بھی ملتا اسے سلام کرتے۔ ایک شخص کو سلام کیا لیکن وہ شاید (ان کے مقابل امیدوار) ملک محمد دین کا حامی تھا، اس نے جواب میں اپنی دھوتی اٹھا دی اور ننگا ہو گیا۔ اقبال جب موٹر کار میں بیٹھے تھکے ہارے گھر جا رہے تھے تو نہایت بجھے ہوئے لہجے میں حفیظ جالندھری سے کہنے لگے : اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ہے، لیکن اس کے افراد اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ہیں؟ حفیظ جالندھری نے اپنے مخصوص انداز میں اقبال کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا : ڈاکٹر صاحب! قوم کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس نے آپ کو دکھلا دیا۔ اس میں مغموم ہونے کی کیا بات ہے۔ اس پر اقبال کھلکھلا کر ہنس دیے اور ساری کدورت دور ہو گئی“۔
- کچھ باتیں شہاب صاحب اینڈ کمپنی پر - 23/04/2025
- اصغر ندیم سید کی کتاب پھرتا ہے فلک برسوں - 18/04/2024
- بچوں کے ساتھ دل بہلانے والے اولڈ بوائز - 26/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).