میری کتاب اور عکس پبلیکیشنز
میری کتاب ’ناروے۔ پگڈنڈیوں سے شاہراہوں تک‘ شائع ہو چکی۔ بازار میں آ گئی۔ اس کتاب کی اشاعت میں مجھے کن کن مراحل سے گزرنا پڑا یہ ایک تھکا دینے والی کہانی ہے۔ یہ کتاب میرے مضامین پر مشتمل ہے جو ناروے کے بارے میں لکھے تھے اور یہ ’ہم سب‘ پر پبلش ہو چکے ہیں۔ اب ان مضامین کو کتابی شکل دی گئی اور یہ ’عکس پبلیکیشنز‘ کے محمد فہد نے شایع کی ہے۔ ان سے پہلے بھی چند پبلشرز نے مجھ سے رابطہ کیا تھا لیکن نہ میری بات انہیں سمجھ آئی نہ مجھے ان کی۔ جب فہد صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنی خدمات پیش کیں تو مجھے اندیشے تو تھے کہ میں اتنی دور بیٹھی ہوں اور کیا پاکستان میں کسی ہر اتنا اعتماد کر سکتی ہوں؟ کیا یہ میری بات سمجھیں گے؟ کیا اس پر عمل بھی کریں گے؟ ان کے بے پناہ اصرار پر میں نے حامی بھر تو لی لیکن یہ ڈر رہا کہ جانے آگے کیا ہو گا؟ہم نے کئی کئی گھنٹے گفتگو کی کہ کتاب کیسی ہونی چاہیے۔ اس کا فورمیٹ کیسا ہو، کون سا فونٹ لگے گا۔ تصاویر کی گرافکس کیسے کی جائے گی۔ کتاب کا سائز کیا ہو گا، سرورق پر کیا ہو گا۔ کاغذ کس کوالٹی کا ہو گا۔ کتاب کے فونٹ پر ہمارا اختلاف ہوا لیکن پھر انہوں نے میری بات مان لی۔ کئی بار تو یوں لگا کہ اب ہم آگے نہیں جا سکتے اور میں نے خود کو الگ کرنا چاہا لیکن فہد کی مستقل مزاجی نے بات سنبھال لی۔ مجھے لگا کہ ہماری ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔
محمد فہد ایک چونتیس سالہ نوجوان ابھرتے ہوئے ناشر ہیں۔ کتاب سے انہیں عشق ہے۔ کئی نامور مصنفوں اور صحافیوں کی کتابیں ان کے ادارے نے چھاپیں۔ اس کم عمری میں ہی سات سو کتابیں شائع کر چکے ہیں اور آگے بھی بہت کچھ کرنے کا ارادہ ہے۔ چونکہ ابھی نوجوان ہیں اس لیے طبیعت سیمابی ہے جو ان کی خوبی ہے۔ کتابیں چھاپنا ان کا خاندانی کام نہیں۔ یہ کاروبار انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر کھڑا کیا ہے۔
ہمارے بیچ تمام معاملات بخوبی انجام پائے۔ فہد صاحب سے یہ بات بھی طے ہوئی کہ کتاب کی سو کاپیاں وہ مجھے بھیجیں گے۔
کتاب کی اشاعت سے لے کر کتاب مجھ تک پہنچنے میں مزید پیچ و خم آئے۔ دیر ہوتی چلی گئی۔ کتابیں بذریعہ ڈی ایچ ایل بھیجی گیں۔ لاہور سے ڈبلن، ڈبلن سے ڈنمارک وہاں سے سویڈن اور بالآخر ناروے۔ انتظار کی شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس پر کسی کا بس نہیں تھا۔ فہد صاحب نے وعدے کا پاس رکھا، کتابیں مجھ تک پہنچ گیں۔ کتاب آرٹ پیپر پر ہے اور اس کی چھپائی اور بائنڈنگ بہت معیاری ہے۔ چار رنگوں نے کتاب کا جمال بڑھا دیا ہے۔
اس دوران فہد کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کی مہم فیس بک پر چل نکلی۔ ان پر کچھ الزامات لگے۔ محمد فہد نے اپنا دفاع بھی کیا۔ مجھ پر بھی اس بات کا اثر ہوا۔ ایک اداسی سی محسوس ہوئی۔ یہ خیال بھی آیا کہ بات اتنی اچھالی کیوں گئی؟ آپس کی بات چیت سے رنجشیں دور ہو سکتی تھیں۔ میرا تجربہ فہد صاحب کے ساتھ بالکل مختلف رہا۔ نہ کوئی وعدہ خلافی ہوئی اور نہ کوئی بداخلاقی اور بد تہذیبی۔
جیسا کہ ہر کاروبار کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ان کے کام سے خوش ہوتے ہیں کچھ نا خوش۔ جو ناخوش ہیں ان کی ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی لیکن خوش ہونے والے بھی بہت ہیں۔ میں فہد کے کام سے مطمئن بھی ہوں اور خوش بھی۔ عکس پبلیکیشنز اور محمد فہد کی شکر گزار ہوں۔ کتاب بالکل ویسی ہی چھپی ہے جیسی میں نے تصور کی تھی۔ مجھے امید ہے کہ آپ کتاب پڑھیں گے اور اپنی بے لاگ رائے بھی دیں گے۔
- مردوں کو عورتوں کے حقوق (فیمینزم) سے خوف کیوں آتا ہے؟ - 22/04/2025
- دیپ جلتے رہے: عفت نوید کی کتاب - 15/03/2025
- حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11) - 14/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).