زندگی تماشا بنی
سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ یہ تاثرات لکھ کر میں ہرگز فلمی ناقدین کی صف میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کر رہی ہوں سو فلمی ناقدین سے آغاز ہی میں معذرت کہ اس مضمون کو فلمی تنقید نہ سمجھا جائے کیونکہ امید واثق ہے کہ یہ مروجہ معیارات پہ پورا نہیں اترے گا۔
یہ ایک آرٹ فلم کے عام سے ناظر کے تاثرات ہیں جسے فلم کے طاقتور اور غیر روایتی موضوع نے لکھنے پہ مجبور کیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آزادی نقل و حمل اور آزادی اظہار رائے، اپنی خوشی اور غم کے اظہار کی آزادی پہ بات کرنا اسے فلمانا اور اس پہ بات کرنا واقعی ایک دلیرانہ قدم ہے جسے سرمد جیسے سرپھرے لوگ اٹھاتے ہیں اور پھر ان کو تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ جی یہ تماشا ہی تو ہے کہ کسی بنیادی حق پہ شخصی آزادی پہ بات کرنے پہ ایک فلم کو متنازعہ قرار دے دیا جائے اور اسے سینما پہ نہ لگنے دیا جائے۔
چلیے پہلے مجھے ایک اعتراف کر لینے دیجیے، فلم دیکھنے سے پہلے میں ہمیشہ دکھ اور تکلیف سے سوچا کرتی تھی کہ ہمارے اس پدر سری سماج میں عورت کے بظاہر بڑے معصوم، بے ضرر حقوق کہ جیسے ہم سر عام خوش ہو سکیں، گنگنا سکیں، کھیل کود سکیں، قہقہہ لگا سکیں، غضب ہیں اور ان پہ سماج کا کڑا پہرا ہے، ہنستی، گنگناتی یا کھلکھلاتی عورت کے کردار کی بابت سرگوشیاں بلند آوازوں میں بدل جاتی ہیں اور پھر آج کل کے ڈیجیٹل عہد کی تو کیا کہیے، بندر کے ہاتھ ماچس آ گئی ہے، ریلز، ویڈیوز، یوٹیوب پہ جس کو چاہے نچوائیے۔
لیکن فلم ”زندگی تماشا بنی“ آپ کو سوچنے اور ٹھٹھکنے پہ مجبور کرتی ہے، فلم کسی عمدہ فن پارے کی طرح اپنی زیریں لہروں میں بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔ فلم دیکھ کر آپ خود کو یہ سوچنے پہ مجبور پاتے ہیں کہ ہمارے گھٹے ہوئے معاشرے میں ہر شخص روایت اور رواج کی زنجیر سے بندھا ہے اور یہ رواج ہے، یہ رسم ہے جو چاہے کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اس کا جاری رہنا ہی کار ثواب ہے جونہی آپ نے رواج و رسم یا معاشرے کے سیٹ کیے ہوئے اخلاقیات کے پیمانے سے انحراف کیا آپ کو مصلوب کر دیا جائے گا۔
آپ کے پاؤں میں ؛ چاہے آپ مرد ہیں یا عورت معاشرے کے نام نہاد اخلاقیات کی زنجیر بندھی ہے۔
اور جب آپ کے سر پہ ٹوپی ہو اور گلا نعت خوانی کے لیے وقف ہو تو یہ زنجیر اور مضبوط ہو جاتی ہے۔
جی یہ فلم ایک نعت خواں کے گرد گھومتی ہے، ایک اندرون شہر کا نعت خواں جسے نعت خوانی کا شوق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلم بینی کا بھی شوقین ہے، جی ہاں فلم بینی۔ ہم زیادہ تر انسان ایسے ہی ہوتے ہیں بہت سے تضادات کا مجموعہ۔
یہ معصوم سا بے ضرر شخص ہے جو اپنی اونچی شان والے پیغمبر سے محبت کرتا ہے، محبت سے نعت پڑھتا ہے، فلم بینی اس کا دوسرا شوق ہے اپنے زمانے کی پرانی فلمیں اپ لوڈ کروا کر دیکھتا ہے، اپنی معذور بیوی سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کی مکمل دیکھ بھال کرتا ہے، اس کی بیٹی شادی شدہ ہے اور ایک ٹی وی چینل میں کام کرتی ہے۔ چینلز کا اندرونی ماحول، ریٹنگ کے مسائل، اور الیکٹرانک میڈیا کے زوال کی داستان وغیرہ چند سینز میں سمیٹ دیے گئے ہیں۔ وہ ایک اچھا باپ اور شوہر ہے، مستی موج میں رہنے والا لا ابالی سا شخص جسے ایک اچھا انسان کہا جا سکتا ہے۔
کہانی میں ٹوئسٹ تب آتا ہے جب یہ نعت خواں ایک شادی پہ بے تکلف دوستوں کی انتہائی نجی محفل میں ان کے اصرار پہ کہ وہ جانتے ہیں کہ اسے فلم اور رقص کا شوق تھا جو باپ کی مار پیٹ میں دب گیا تھا، فلم ایکٹریس آسیہ کے گانے پہ رقص کرتا ہے اور وہاں ایک ستم ظریف اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتا ہے اور یہ ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے، آگے کی فلم ان حالات اور المیے پہ مشتمل ہے جو اس نعت خواں کو اس ویڈیو کے وائرل ہونے پہ پیش آتے ہیں۔
ہاں ایک اور بات سنا تو یہ تھا کہ فلم خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے لیے بنی ہے، جب کہ مجھے ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔ ہاں خواجہ سرا کی معاشرے میں ذلت و تحقیر کو علامت کے طور پہ استعمال کیا گیا ہے کہ عید میلاد النبی پہ نعت خواں کا بنایا حلوہ خواجہ سرا کے ہاتھ سے لے لیا گیا اور اس نعت خواں کو رد کر دیا گیا چلیے اب ان سوالوں کی طرف جو میرے ذہن میں پیدا ہوئے :
· نعت خواں کا رقص نجی محفل میں بھی مجھے فحش کیوں لگا جبکہ وہی سٹیپس فلم سٹار آسیہ لے رہی ہیں اسی گانے کے بولوں پہ، یعنی کیا میرا ذہن بھی رواج کی زنجیر سے آزاد نہیں ہے؟
· نعت خوانی کی محفلوں پہ ہونے والی ویلیں اور دیگر کام غلط ہو کر بھی غلط کے زمرے میں نہیں آتے کیوں؟
· عید میلاد النبی پہ مسجد نبوی کی شبیہ لگا کر رقص کرتے لڑکے بالڑوں پہ فتوی اس لیے نہیں لگتا کہ ہماری آنکھیں ان مناظر کو دیکھنے کی عادی ہو گئی ہیں؟
· اور معاملہ جب مولوی کی عدالت میں پہنچے تو وہ جس کو چاہے توہین رسالت کا فتویٰ لگا کر رجم کرنے پہ قادر ہے؟
· کیا آج کل کے ڈیجیٹل دور میں آپ کی پرائیویٹ محفل کو ایک ایسی آنکھ میسر آ گئی ہے جو کسی دستار، کسی جبے کسی عہدے کو نہیں دیکھے گی؟
· گویا آج وہی محفوظ ہے جس کی کوئی ویڈیو، ریل یا ٹک ٹاک ہاتھ نہیں لگی؟
· کیا گناہ گار اور مجرم وہ شخص نہیں ہے جس نے نجی محفل کو پبلک کیا؟
· کیا اس سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنے کے لیے کسی سخت قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے؟
· کیا کوئی معزز اور محترم شخص اپنی کسی بہت ذاتی اور نجی محفل میں کچھ اوٹ پٹانگ چلیے فحش کہہ لیجیے حرکتیں یا، رقص کر کے اپنی مرضی سے جی نہیں سکتا؟
· اور آخری سوال جو شروع میں بھی کیا تھا کہ کیا ہم میں سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ تضادات کا مجموعہ نہیں ہے؟
· کیا ہم سب ایک چہرہ رکھتے ہیں؟
· ہم کہیں باپ، کہیں ماں، بہن، بھائی، بیٹا، شوہر، دفتر، کچن، مالک، گاہک۔ ہر جگہ ہر موقع پہ کیا ہمارے چہرے مختلف نہیں ہوتے؟
کیا ہم رواج و رسم کی زنجیر کھول کر کسی معصوم شخص کو اس کی نجی محفل میں اس کی پسند کا رقص کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟
اسے خوش ہونے کی، زندہ رہنے کو لمبا سانس بھرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ گناہ ثواب کا فیصلہ اس پہ چھوڑ دیتے ہیں جو سب کا خالق ہے۔
- ظلم کے ایوانوں میں ایک تھا مسٹر چارلس بائیکاٹ - 23/04/2025
- یوم نسواں پہ کچھ اچھے مردوں کو سلام - 10/03/2025
- روحانی لفنگے۔ مشتری ہشیار باش - 09/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).