کیا فیمنزم ہمارے ماحول کے مطابق ہے؟


وہ ممالک جو تیسری دنیا میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھٹہ بھی بیٹھا ہوتا ہے، وہاں مردوں سے زیادہ عورتوں کو زیادہ کوششیں کرنی پڑتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں مردوں کی نسبت عورتوں کو بطور انسان بہت کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ابھی چند روز قبل ضلع میانوالی کے ایک نواحی علاقہ دندہ شاہ بلاول میں لوگوں کو ایک عورت کی لاش ملی۔ جب چھان بین ہوئی تو پتا چلا کہ اس کا شوہر ہی اس کا قاتل ہے۔

قتل کی وجوہات اب جو لوگ بیان کر رہے ہیں وہ یہ کہ یہ عورت اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روک رہی تھی۔ یعنی وہ اس کی دوسری بیوی کے درمیان حائل ہو رہی تھی۔ چنانچہ شوہر صاحب نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ تمام راستے ہی ختم ہو گئے۔ اب عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ان مظالم کا حل کیا ہے، بغاوت؟ بغاوت تو خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بغاوت اپنی ذات میں کوئی متبادل سلوشن نہیں، بلکہ بغاوت تو بعض اوقات خود ایک لاینحل صورتحال ہے۔

آج جدید دور میں مسائل پرامن طریقے سے اور بتدریج ہی حل ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق اس ضمن میں عورتوں کو پہلے تعلیم اور پھر روزگار پر توجہ دینی چاہیے۔ جب یہ دو کام ہو جائیں گے اور وہ خود مختار ہو جائیں گی تو اب خود بخود وہ اپنے کھوئے ہوئے حقوق اول حاصل کر لیں گی، نہیں تو وہ یہ حقوق حاصل کرنے میں حق بجانب بھی ہوں گی اور ان کی راہ میں کوئی مادی رکاوٹ روڑے نہیں اٹکائے گی۔ مرد ہو یا عورت اس کی آزادی کا راستہ اس کی جیب (بینک بیلنس) سے ہو کر جاتا ہے۔

فیمنزم کی تحریک اچھی ہے، لیکن اس کے لیے پہلے اپنا ماحول بھی تو سازگار کیجیے۔ محض سوشل میڈیا پر چند اپنے ہم خیال بنا لینے سے، اور محض ایک دن کو مختص کر کے آپ کتنی کچھ آزادی اینٹھ لیں گے؟ پہلے آپ اس کی پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کیجیے۔ مختلف شہروں میں اپنے ورکرز سے رابطہ کر کے وہاں لوگوں کی ذہن سازی کیجیے۔ عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق کا احساس دلایے۔ دوسرا عملی قدم جو اس ضمن میں ہے وہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، تعلیم اور پھر مابعد تعلیم روزگار۔

کسی بھی جنس کے فرد کا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا (خود مختاری) آزادی کا ضامن ہے۔ پھر آپ خواتین کی یہ بھی ذہن سازی کیجیے کہ بی بی تعلیم کے بعد گھر نہیں بیٹھنا۔ جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر لیڈیز کا المیہ ہے کہ ان کے پاس ڈگری ڈاکٹریٹ کی ہوگی، لیکن کہیں گی نہیں ہمیں گھر اور بچے سنبھالنے ہیں۔ یہ بھی بے شک ضروری ہے۔ لیکن آپ اس کو بھی مینیج کر سکتے ہیں۔ آپ ملازمت کریں، آپ میاں بیوی مل کر گھر کی دیکھ بھال کے لیے ملازم بھی رکھ سکتے ہیں۔ تیسرا تھوڑا ہاتھ ہولا رکھیں۔ ہر کسی پر عورت دشمن کا لیبل نہ لگائیں، اور نہ ہی مرد پر تسلط کے عزائم پا لیے۔ جب دونوں جنس برابر ہیں تو تسلط کیسا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments