عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی داستان
جب یہ سارے معاملات چل رہے تھے تو ایک خاتون کو ایک پولیس افسر کو کس طرح ہراساں کیا، خود اس کی زبانی سنیے۔ بی بی سی کے مطابق وہ پولیس افسر سے کہتی ہے ”میں نے کہا مجھے ہاتھ مت لگاؤ، میں خود قیدی وین میں بیٹھ جاؤں گی۔ پولیس والے نے جواب دیا تم کون سا شریف لڑکی ہو۔ اگر شریف ہوتی تو گھر سے نہ نکلتی میری والدہ کا انتقال ہو چکا لیکن اگر وہ زندہ ہوتیں تو یہ سب دیکھ کر ویسے ہی مر جاتیں۔“ یہ واقعہ یقیناً بہت قابل مذمت ہے اپنی جگہ پر۔
کیا شرافت اور بدمعاشی جا تعلق جنس سے ہے؟ کوئی شریف ہے تو یہ اس کی خوبی بتائے گی اور اگر کوئی بدمعاش ہے تو وہ اپنی خامی سے ظاہر ہو گا۔ دوسرا مرد اور عورت کے لیے شرافت اور بدمعاشی کا پیمانہ برابر ہے۔ جو چیز عورت کے لیے بری یا اچھی ہے وہ مرد کے لیے بھی بری یا اچھی ہے۔ تیسرا کیا ہماری جو سیاسی خواتین ہیں یا ورکرز ہیں۔ کیا ان کا تعلق شرافت سے نہیں ہے؟ تحفظ فراہم کرنے والے ادارے بھی اب مختلف تفریقات اور اپنی سوچ کے متعلق انصاف فراہم کریں گے۔
یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟ چھوتا یہ محترمہ جنہیں ایک پولیس افسر کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ انہیں پتا ہے کہ ایسے معاملات میں ان کے لیڈر (خان صاحب) کی کیا رائے ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک ایسا ہی کیس موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ بنا تھا تو خان صاحب نے بھی اس بیچاری خاتون کے کپڑوں کو ہی بلیم کیا تھا، اور خان صاحب نے مزید کہا تھا کہ مرد کوئی روبوٹ نہیں ہے کے وہ عورت کی ٹیمپٹیشن پر کوئی ردعمل نہیں دے گا۔
پھر اسی کیس کے ذیل میں ایک پولیس افسر نے یہ بیان داغا تھا کہ وہ خاتون فلاں وقت گھر سے نکلی کیوں۔ اگر خان صاحب اس وقت (اپنے حکومتی دور میں ) اس پولیس افسر کی حوصلہ شکنی کرتے تو آج اس پولیس افسر کی بھی اتنی ہمت نہ ہوتی۔ جبکہ خان صاحب تو خود ایسے بیان داغ رہے تھے جس ان کی خراب ذہنیت کا پتا چلتا ہے کہ ان کی ذہنیت بھی وہی ہے جو سڑکوں پر، گھروں میں کام کاج کرنے والی اور مختلف مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے والوں کی ہوتی ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ خان صاحب کو ہیرو بنا کر پیش کرنے میں مردوں کی نسبت خواتین نے زیادہ قربانیاں دیں۔ لیکن پھر بھی خواتین کے لیے خان صاحب نے کچھ نہیں کیا۔ حالانکہ وہ اس ضمن میں بہت اچھی قانون سازی اور کردار سازی کر سکتے تھے۔ پاکستان کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی بات سنتی اور اسے اپناتی ہے، پھر سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ وہ جن پولیس اصلاحات کا بڑے زعم سے ذکر کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ اصلاحات تھیں؟ دوسرا اگر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی بات کی جائے جو یہ ہمارے ہاں گھر سے لے کر باہر تک ہے۔
جب کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس گھر کی خوشی لڑکا پیدا ہونے والے گھر سے کم کیوں ہوتی ہے۔ اولاد نرینہ کی دعا مانگی جاتی ہے، اور اگر غلطی سے پھر بھی لڑکی پیدا ہو جائے تو دادیاں بہو کو کوستی اور اس موقع پر بھی سوگوار ہی رہتی ہیں۔ پھر یہ تفریق معاشرے کی رسم و رواج کی آڑ میں ماں باپ بھی کرتے ہیں۔ جیسے ایک غلطی لڑکے سے ہو اور وہی سیم غلطی لڑکی سے ہو جائے، تو بعض اوقات لڑکے کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا جبکہ لڑکی کو سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے۔
موبائل فون اگر برا ہے تو لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے بیک وقت برا ہے۔ لیکن یہاں بھی لڑکی کو کہا جاتا ہے تم ”لڑکی“ ہو۔ خبردار جو موبائل کا نام لیا۔ پاپا بہت ماریں گے۔ اب اس پندرہ سولہ لڑکی کے شعور، تحت الشعور اور لاشعور میں پتہ نہیں اس بات کا کیا امیج بنتا ہو گا۔ پڑھنے کا معاملہ وہاں بھی یہی تنگ نظری ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ شہروں میں اتنا مسئلہ نہیں ہے لیکن دیہاتوں میں یا پسماندہ شہروں میں عورتوں کے لیے بہت گھٹن زدہ ماحول ہے۔
ہاڑ اور ساون کی گرمی بھی موٹے موٹے ٹوپی والے فل برقعے پہنائے جاتے ہیں۔ جنہیں کسی بھی موسم میں دیکھ کی ہی کوفت ہوتی ہے۔ آئے روز عورتوں پر تشدد کے کیسز ہمارے سامنے سوشل میڈیا پر سامنے آتے رہتے ہیں۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں عورت بھی عورت کی دشمن ہے۔ وہ بطور بہن بھائی کو بیوی کے خلاف اکسائے گی۔ وہ بطور بیوی اپنے شوہر کو اس کی ماں اور بہن کے خلاف اکساتی ہے۔ وہ ساس بن کر بہو کا جینا حرام کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں بس جس کو جس پر موقع ملتا ہے وہ اپنی بھڑاس نکال دیتا ہے۔
- کچھ باتیں شہاب صاحب اینڈ کمپنی پر - 23/04/2025
- اصغر ندیم سید کی کتاب پھرتا ہے فلک برسوں - 18/04/2024
- بچوں کے ساتھ دل بہلانے والے اولڈ بوائز - 26/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).