ہسٹری ہینکر اور راکھ کا شہر
یو ٹیوب چینل ہسٹری ہینکر کی نئی پوسٹ دیکھ رہی تھی۔ یہ نئی پوسٹ معلوماتی سے بڑھ کر اچھی خاصی ہولناک اور دہشتناک تھی۔ وحشت اور ہولناکی ہسٹری ہینکر کے لفظوں اور چہرے کے تاثرات سے تو اتنی عیاں نہیں تھی جتنی ماحول سے چھلک کر اعصاب پہ اثر انداز ہو رہی تھی۔
ہسٹری ہینکر اس دفعہ دنیا کے ویرانے و عجائبات و قدامت دریافت کرتے ہوئے سدوم وعمورة کی عذاب الہی سے اب تک جھوجھتی برباد بستیوں پہ جا پہنچا تھا۔ وہی بر باد بستی۔ پیغمبر لوط کی برباد بستی جو لواطت کے گڑھے میں بری طرح گرچکی تھی اور تمام تر تنبیہ و پیغام ہدایت کے باوجود سر کشی و ڈھٹائی پہ جمی رہی اور پھر برباد کر دی گئی۔
آج سے کم ازکم چار پانچ ہزار سال پہلے جب ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا بھتیجا لوط علیہ السلام ان بستیوں کی جانب مبعوث ہوا تھا، یہ شاداب و آباد بستیاں جو اب برباد ویرانے ہیں۔ ریت کی طرح بھربھری ہو چکی ہیں جنھیں ہسٹری ہینکر دکھ و اذیت سے بے ساختہ راکھ کا شہر کہہ اٹھتا ہے۔
چلیے پہلے آپ کو ہسٹری ہینکر سے ملواؤں، یہ درویش صفت، صوفی منش آوارہ گرد ڈاکٹر کاشف مصطفی ہے، جی ہاں وہی کاشف مصطفی جو دنیا کے چند بہترین ہارٹ سرجن میں سے ایک ہے اور ”دیوار گریہ کے آس پاس“ جیسے سفر نامے کا مصنف ہے۔ اس کے سر میں جانے کیا سودا سمایا ہے، کوئی وحشت ہے جو اس دبلے پتلے اور طویل قامت سر پھرے ڈاکٹر کو دنیا بھر کی خاک چھاننے پہ مجبور کرتی ہے، کوئی تجسس ہے کہ وہ تاریخ، قدامت، خدائی دانش کو کھوجتا کبھی صحراؤں میں ہوتا ہے کبھی ایمزون کے قدیم جنگلوں میں، کبھی کوہ طور پہ، کبھی کسی پریوں کے شہر مانچو پیچو میں جو پیرو میں واقع ہے کو کھوجنے نکل جاتا ہے اور اس دفعہ اس نے اسرائیل میں جہاں اور بہت سے مقامات کو دوسری بار کھوجا وہیں اس دفعہ اس کی آخری منزل سدوم وعمورة کی خانماں برباد بستیاں تھیں۔
حضرت لوط جب اس قوم سے مایوس ہو کر اس بستی سے نکلے تو تمام صحائف کے مطابق اس قوم کو زلزلے اور آسمانی آتش نے راکھ کر دیا۔ وہ بستی جس کو نشان عبرت کے طور پہ اب بھی زمین پر دیکھا جا سکتا ہے۔
راکھ اور عذاب سے جھوجھتی بھر بھری خاک کی بستی کہ جس کے جس پتھر کو بھی ہسٹری ہینکر ہاتھ لگاتا ہے وہ بھربھرا ہو کر ہزاروں بے شمار زروں میں بکھر جاتا ہے۔ پانچ ہزار سال سے یہ راکھ اور خاک کسی پراسرار قوت کے سہارے ٹیلوں اور پہاڑوں کی شکل میں موجود ہے۔ اس سوال کا جواب عقل ویسے ہی نہیں دے پاتی بالکل جیسے مدین کی بستی جو صالح کی اونٹنی زبح کردینے کے بعد نشان عبرت بنا دی گئی تھی اور نشان زد کردی گئی کہ دوران سفر اس کا نظارہ کر کے عبرت پکڑی جا سکے، کا جواب نہیں ملتا۔
جانے کیوں اس برباد بستی اس راکھ کے شہر کو دیکھ کر میرا دھیان اپنے اطراف چلا گیا ہے۔ میرے ارد گرد بھی تو ہر طرف راکھ بکھری ہوئی ہے میرے ملک کا ہر ادارہ اس وقت بھر بھری خاک میں بدل چکا ہے وہ عدلیہ ہو یا پھر مقننہ یا انتظامیہ، حکومت ہو یا پھر اپوزیشن، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پھر سوشل میڈیا، ہر طرف راکھ ہی راکھ اڑ رہی ہے۔
وہ ناقابل شکست اور خفیہ پراسرار ادارے ہوں جن کی گرد کو کوئی نہیں چھو سکتا تھا آج ان کی راہداریوں میں رسوائی کی گرد اڑ رہی ہے وہ طاقتور جرنیل ہوں جن کے سر پہ ہما کا تاج سجا تھا اور اس ملک میں اصلی بادشاہ بھی وہی اور بادشاہ گر بھی وہی، آج گالیوں کی دھول میں اٹے پڑے ہیں۔ وہ مقدس وردیاں جن میں ہم نے شہید بیٹے دفن کیے تھے ان کو غیض و غضب کی آتش نے راکھ کر دیا ہے۔
اس ملک کے استاد ہوں یا علماء انھوں نے درسگاہوں اور مدرسوں کو منڈیوں میں بدل دیا ہے، صنعتی تجارتی کاروبار کی منڈیاں، لواطت اور زنا کی منڈیاں۔ اس ملک کے تاجر ہوں صنعتکار ہوں یا پھر عام پرچون فروش چوری، رشوت، اور ہر طرح کی اخلاقی و قانونی برائی کی خاک سے لتھڑا ہوا۔ اس ملک کا ادیب و دانشور یا مصلحت کوش اور منافق، مفاد پرست اور گروہی تفاوت میں پھنسا ہوا یا پھر بہت بے بس و لاچار۔ اس ملک کے انجنئیر اور ٹھیکیدار سیمنٹ میں اتنی ریت ملاتا ہے کہ ہر عمارت بھر بھری ریت بن جاتی ہے۔ اس ملک کے ڈاکٹر شفا نہیں دیتے، دوا نہیں دیتے، ان کے کلینکس اور ہسپتالوں میں بس کمیشن اور بدنام تجارت کی راکھ اڑتی ہے۔
سوشل میڈیا کو ہم نے تعلیم و آگاہی، سائنس و علم کی ترویج کی بجائے نفرت، گندی سیاست، شدت پسندی، تعویز گنڈے اور توہم پرستی کی پستی میں پھینک دیا ہے۔ وہ ٹویٹر ہو یا ٹک ٹاک جس کو اقوام عالم سنجیدہ اور اہم پیغام رسانی کے ذرائع کے طور پہ استعمال کرتی ہے کو ہم نے فحاشی اور شرمناک ٹرینڈز کی غلاظت و راکھ سے آلودہ کر دیا ہے۔ ہر بھانڈ، سستی بات کرنے والا، فحش حرکات کرنے والا یا والی اس کے بل بوتے پہ آرٹسٹ ہونے کا دعویٰ کرنے لگا سو سچا آرٹسٹ اس ملک میں خاک چاٹ رہا ہے یا اسے خاک چٹوا دی گئی ہے۔
آرٹ و ادب سڑکوں پہ خاک چاٹنے کے لئے بھی دستیاب نہیں۔ ہر ادارہ، ہر شخص شک و بے اعتباری کی دھول سے اٹا ہے۔ ہم نے جانے کب اپنی وحشت جنوں اور تکبر و ڈھٹائی کی حد میں تقدس کی ہر اونٹنی ذبح کردی۔
لوط تو صدیاں پہلے چلے گئے تھے اور ہمارے قصبے، شہر، گاؤں ہمارے محلے، کالونیاں زنا، فحاشی اور لواطت کے اڈے بن چکے ہیں، یہ غلاظت اتنی عام ہو گئی ہے کہ دو معصوم بچے بھی پاس بیٹھے ہوں تو سانس سینے میں اٹکنے لگتی ہے۔
ہر طرف راکھ اور خاک اڑ رہی ہے۔
مسٹر ہسٹری ہینکر! ، آپ راکھ کا شہر دیکھ کر آئے ہو۔
آؤ، دیکھو یہ راکھ ہوئی ایک اور بستی ہے جس میں میں، میرے بچے اور ہمارے اجداد رہتے ہیں۔
- ظلم کے ایوانوں میں ایک تھا مسٹر چارلس بائیکاٹ - 23/04/2025
- یوم نسواں پہ کچھ اچھے مردوں کو سلام - 10/03/2025
- روحانی لفنگے۔ مشتری ہشیار باش - 09/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).