یاد کے لنگر کا منظر: کاشف رضا اور اقبال خورشید کے طویل مکالمہ کے بعد
کمال اس حوالے سے اسلام آباد میں آباد اک صاحب نے یہ کیا کہ انہوں نے اپنی تعلیمی ایام اور سفرنامہ ( وہ بھی کچا ) کو ناول کہا کر چھاپ دیا۔
کاشف رضا بھائی کو میں نے کب سوشل میڈیا پر دیکھنا شروع کیا؟ یہ تو یاد نہیں۔ اس دوران ہی ان دنوں ان کے ناول کا چرچا تھا۔ اتفاق سے میں ان ماں بولی میلہ پر اسلام آباد گیا تو دوپہر کتابوں کے سٹال پر میں ان کا ناول ہی اٹھا کر کھڑا تھا۔ سامنے دیکھا تو کاشف بھائی نظر آئے۔ کچھ حال احوال ہوا۔ انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ جو سوشل میڈیا پر اک دوسرے کو دیکھنے کی وجہ سے تھا۔ میں پتہ نہیں کیوں ان سے زیادہ شناسائی نہ بنا سکا؟
ان کے ناول کے کچھ حصہ کو بھی دیکھا ( پورا نہ پڑھا۔ کیوں؟ بس ملا نہیں ) پھر ان کو زیادہ توجہ سے سوشل میڈیا پر دیکھنا شروع کیا۔ وہ سیاسی موقف بہت زیادہ تلخ و بلند آہنگ میں بیان کرتے جو کہ مجھے اچھا نہ لگتا۔ ادبی حلقوں میں بھی ان کے جیو نیوز سے وابستگی کو ادبی ایوارڈز کی وجہ بتایا جاتا۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر ہمیشہ ان سے ادبی سنگت کا شوق رہا جو پورا نہ ہو سکا۔ آج اقبال خورشید صاحب کے مکالمہ سے پوری ہوئی۔ اور اک بہت بڑا الجھاؤ بھی دور ہوئی کہ کاشف بھائی دراصل ہیں کیا؟ شاعر، سیاسی یا ناول نگار۔ میرے تینوں اندازے غلط نکالے۔
کاشف بھائی! اک سیاسی ذہین رکھنے والے باشعور لیکن ذرا تلخ متعلقہ شہری ہیں جو کہ نیوز چینل میں نوکری کرتے اور فارغ وقت میں ترجمہ بھی اچھا والا کرتے۔
خاص طور پر محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ جو ان کے اردو زبان اور انگریزی زبان پر ان کے بیک وقت دسترس ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ ان سے طویل گفتگو دنیا کی ہر چیز کے حوالے سے کرنے کی چاہ ماضی میں بھی تھی اور ابھی بھی ہے۔ آخر میں شکریہ اقبال خورشید صاحب کہ آپ نے اردو کے قابل توجہ ناموں کے ساتھ سلسلہ شروع کیا
شاعر، فکشن نگار، مترجم اور صحافی سید کاشف رضا سے ایک مکالمہ
- دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا تنازعہ - 23/04/2025
- موسم سرما کی اداسی: موسمیاتی تبدیلی کا شکار لاہور - 17/12/2024
- لاہور کاربن اور سموگ نیوٹرل سٹی؟ - 23/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).