ایک چپ ہزار دکھ


کہتے ہیں کہ لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کی قوت برداشت کو آزماتے ہیں۔ آپ باتیں سن کر چپ رہتے ہیں تو ساری زندگی آپ کو باتیں سنائی جاتی ہیں۔ ایک بار گالی سن کر چپ ہو گئے تو ساری زندگی گالیاں سننا آپ کا مقدر بن جاتا ہے۔ دراصل آپ کا جھکا ہوا سر اور خاموشی دوسروں کو یہ باور کروا دیتی ہے کہ آپ مجبور ہیں اور باتیں، گالیاں اور یہاں تک کہ جوتے بھی کھا سکتے ہیں۔ لہذا دوسروں کو ایسا سمجھنے کی اجازت ہی نہ دیں وہ ایک بار آپ کے ساتھ غلط کریں تو اسی وقت انہیں فوری جواب دے دیں تو دوبارہ وہ کبھی ایسی جرات نہیں کریں گے اور ایسا کرنا ہی خود سے انصاف کرنے اور خود کی عزت کروانے کا اصل طریقہ ہے۔

گھر پر، خاندان میں اور رشتہ داروں کے جھرمٹ میں اور ملازمت کی جگہ پر، ہر جگہ وہی پستا ہے، سہتا ہے جو چپ رہتا ہے، سب کی سن لیتا ہے، انکار نہیں کر پاتا وہی سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے کیونکہ لوگ ایسے انسان کو گرا ہوا، کم عزت والا اور نیچ سمجھتے ہیں اور ایسا انسان سب کے کام کر کے بھی اچھوت ہی رہتا ہے۔

اکثر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں، ہم پر طنز کر رہے ہیں، ہمارے حقوق غضب کر رہے ہیں، ہم پر بے جا تنقید کر رہے ہیں تو چپ رہ کر ہم کوئی مہان انسان بن جائیں گے اور ایک دن ایسا کرنے والے ہماری اچھائی سے متاثر ہو کر ہمارے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ بھائی صاحب آپ جس طرح برسوں سے ہمارے یہ یہ ستم چپ چاپ بنا اف کیے سہ رہے ہیں یہ دیکھ کر ہم بہت شرمندہ ہیں اور معافی کے طلب گار ہیں تو یاد رکھیے ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ ستی ساوتری بننے کا دور گیا۔ اب آپ کی چپ آپ کو زیادہ سافٹ ٹارگٹ بنا دیتی ہے اور سب آپ کو اپنا مشق ستم بنانے کی ریت اپنا لیتے ہیں۔ عقلمندی یہ ریت توڑنے میں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھاتے اور چپ رہتے ہیں جس کی بدولت نہ صرف ہمارے حقوق غضب ہوتے ہیں بلکہ مشکلات بھی ہم ہی کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اکثر اوقات ملازمت کے دوران کام چور، نکمے، سست، مفاد پرست، خود غرض اور تیز طرار کولیگز اپنے کاموں کا بوجھ کسی چپ شاہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہانے یہ ہوتے ہیں کہ ہم نے تو یہ کام کبھی کیا نہیں نہ ہمیں آتا ہے نہ ہم اتنے ذہین ہیں وغیرہ وغیرہ اور چپ شاہ صاحب ان کے جھانسے میں آ کر بے جا کاموں کا بوجھ خود پر لاد لیتے ہیں اور دوسروں کے لیے مشقت کر کر کے تھکتے اور کڑھتے رہتے ہیں جبکہ کام نکلوانے والے نہ صرف موجیں مارتے ہیں، زندگی انجوائے کرتے ہیں بلکہ کام نکلوانے کے بعد چپ شاہ صاحب کی نیکی و اچھائی کا اعتراف بھی نہیں کرتے اور اسے جھلا، پاگل اور بیوقوف کہہ کر اس کی پیٹھ پیچھے اس کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں کہ دیکھو کیسے اس پاگل سے ہم آرام سے اپنا کام کروا کر خود سکون سے رہتے ہیں اور اسے مصروف رکھتے ہیں تو چپ شاہ صاحب اور صاحبات کو اب اپنی چپ توڑنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مفاد پرستوں اور کام چوروں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

افسران و مالکان بھی چپ شاہ سے ہی کام نکلواتے اور اسے تیسرے درجے کے شہری، ٹشو پیپر بلکہ کوڑا کرکٹ کی طرح سمجھتے اور ٹریٹ کرتے ہیں جبکہ اپنے حقوق سے آگاہ اور فضول کام کرنے سے انکار کرنے والے ماتحتوں کی عزت کرتے اور ان سے ڈرتے بھی ہیں تو عزت کروانے کے لیے چپ توڑنا اب وقت کی ضرورت ہے۔

خاندان میں بڑے بزرگوں کی ہر غلط بات، اصول و ضوابط اور سختیوں پر چپ رہنا بھی ذہنی اور جذباتی مسائل پیدا کرتا ہے۔ لہذا غلط کے خلاف ڈٹ جائیں، چاہیں غلط کی ڈیمانڈ کوئی بھی کر رہا ہو اور وہی کیجیے اور مانیے جو درست اور حق بات ہے۔ اسلام بھی غلط کا ساتھ دینے سے روکتا اور حق بات کہنے اور کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

دوستی، محبت اور تعلق ہر جگہ جہاں آپ کو لگے آپ کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے، آپ کو فار گرانٹڈ لیا جا رہا ہے، آپ کا استحصال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بول پڑیے کیونکہ کوئی بھی چیز حقوق اور عزت نفس سے بالاتر نہیں ہوتی۔ صرف اسی دوستی، محبت اور تعلق کا حصہ بنیں، اسے قبول کریں اور اسے قائم رکھیں جو برابری اور حقوق کی یکساں ادائیگی پر بنا ہو۔ صورت حال اس کے برعکس ہو تو ٹا ٹا بائے بائے کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔ خود کو ہر جگہ مقدم رکھیں اور اپنے لیے خود کھڑے ہوں کیونکہ یہ کام آپ نے خود ہی کرنا ہے نہ کہ کسی اور نے۔

انڈیا کے موٹیویشنل سپیکر سندیپ مہیشواری نے ایک بار کیا خوب کہا تھا کہ جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہر شخص آپ کو بس استعمال کر کے آپ سے فائدہ لینے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے۔ آپ مریں یا جیئیں کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا، سب کو بس آپ سے اپنا فائدہ لینے کی حد تک ہی مطلب ہوتا ہے۔ ہاں آپ کے گھر والے پھر بھی کہیں نہ کہیں آپ کا بھلا سوچ لیتے ہیں لیکن باہر والے کبھی نہیں۔ لہذا کبھی باہر والوں کے استعمال کی چیز نہ بنیں اور اگر کوئی آپ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے تو بول پڑیں اور انکار کر دیں۔ چپ نہ رہیں کہ چپ بھی ادھر ہاں ہی سمجھی جاتی ہے۔

ہاں جہاں آپ کو لگے کہ واقعی کوئی مدد کا مستحق ہے تو چھان بین کر کے اس کی مدد کر دینا احسن اقدام ہے لیکن یہ بھی ہر بار نہیں۔ جہاں لگے مدد کی حد ختم ہو رہی ہے تو چپ نہ رہیں بول کر انکار کر دیں کہ بھئی اب بس آپ اپنا کام خود کریں۔

پس آج کا زمانہ چپ کا نہیں رہا۔ اپنا وقت اور انرجی کسی کے لیے بلاوجہ ضائع نہ کریں۔ بہادر بنیں۔ بزدلی چھوڑ دیں۔ یہ مت سوچیں کہ دوسروں کو برا لگے گا آپ کا امیج خراب ہو گا آپ بد تمیز اور منہ پھٹ کہلائیں گے بلکہ خود کو استعمال اور خود کا استحصال کرنے والے ہر فرد اور افراد کو بول کر انکار کریں۔ مطلب پرستوں کی سب چالیں ناکام بنا دیں۔ چپ رہ کر اور یس یس کر کے خود پر ستم بند کریں۔ جائز مقامات پر چپ رہ بھی لیں پر کبھی کبھار۔ نہ اپنے حق سے زیادہ کسی سے لیں نہ کسی کو لینے دیں۔ ایک چپ ہزار دکھ کی سٹریٹیجی کی بجائے ایک انکار ہزار سکھ کی سٹریٹجی اپنائیں اور سکون سے زندگی جیئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments