"دھند” مارچ میں ختم ہو جائے گی


جبر کا موسم خواہ کتنا ہی طویل ہو آخرش انجام کو پہنچتا ہے۔ جب بھی استبداد کی طوالت پریشان کرتی ہے تو ڈی ایچ لارنس کا ایک مضمون whistling of birds ذہن کے کسی گوشے میں ٹمٹماتا ہے۔ ڈی ایچ لارنس ایک عہد ساز مصنف تھے۔ تشبیہ، استعارے، کنائے اس کے فقروں میں ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ٹھٹھرتی شاموں میں یخ بستہ سرد ہوائیں کہرے میں گھرے ہوئے پرندوں کو ابدی نیند سلا دیتی ہیں۔ موت اور سردی میں عملا امتیاز ممکن نہیں رہتا۔ بکھرے خون آلود جمے ہوئے پر زندگی کے اختتام کی نوید سناتے ہیں۔ لیکن زندگی ولولہ انگیز ہے۔ وہ اس موت کے ناچ کے بعد کہیں سے پھر سر اٹھاتی ہے ایک خوش الحان پرندے کی ٹھٹھرتی کوک موت کے سناٹے کو چیر کر بہار کے امکان زندہ کر دیتی ہے۔ اگر وقت میسر تو یہ خوبصورت مضمون ضرور پڑھیں۔

ہمارے یہاں اس بار پھر چند ارباب بست و کشاد کو تماشے کی سوجھی تو انہوں نے نئے پاکستان کا خواب بنا۔ جیسے اینیمل فارم میں آئیڈیلزم کے پرچارک چند جانور ایک یوٹوپین ریاست کے قیام کی تحریک چلانے ہیں۔

فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ نہ ہمارے حالات تبدیل ہوتے ہیں نہ ہماری نظمیں پرانی ہوتی ہیں۔ بس ویسے ہی ہمارے یہاں بھی کسی نہ کسی بطل رشید سرکاری اہلکار کو انقلاب کا شوق چراتا ہے اور وہ بمشکل ڈگر پر آئے ملک کو پھر سے پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔

ملک پچھلے اڑھائی سال سے جس انقلاب کی زد پر ہے اس سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکا۔ طاہر القادری، عمران خان اور خادم حسین رضوی کے دھرنوں سے لیکر ارشد ملک اور ثاقب نثار عدالت تک کی کہانی دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ریاست نے ان خودساختہ حادثات و آفات کو جس مقصد کی تکمیل کیلئے تخلیق کیا اس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ نہ شہری کا ریاست کے کسی ادارے پر اعتماد باقی رہا یے اور نہ عالمی سطح پر ہماری کوئی عزت بچی۔

مفادات کے تحفظ اور سیاسی مصالحت کو قائم رکھنے کیلئے شہریوں کو مافیاز کے سپرد کردیا گیا۔ لوٹ کا بازار پوری سینہ زوری کے ساتھ سرگرم ہے۔ ریاست کی سرپرستی میں سایسی رشوتیں بانٹی جا رہی ہیں۔ نااہلی، کج فہمی، عارضی فوائد، خود غرضی اور دیہاڑی لگانے کی ذہنیت نے ملک کو ایک اندھے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ میں سازشی نظریوں پر یقین نہیں رکھتا لیکن وقت گزرنے کیساتھ یہ احساس زور پکڑتا گیا کہ معاملہ صرف نااہلی تک محدود نہیں بلکہ یہ ریاست پاکستان کیخلاف ایک منظم سازش کی گئی ہے۔ 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرتی معیشت کو منفی پر لے آنا محض نااہلی کے بس کی بات نہیں۔ خارجہ محاذ پر مکمل تنہائی، کشمیر کا سقوط اور اس پر خاموشی، فیٹف میں مسلسل لٹکتی تلوار، سکڑتی معیشت، سی پیک کا عملا رول بیک، دفاعی اخراجات کیلئے بھی فنڈ نہ بچنے کی صورتحال، محصولات میں واضع کمی، تاریخی بے روزگاری، قومی اداروں کا تاریخی خسارہ محض اتفاق نہیں۔

ان ناکامیوں اور خامیوں کے نتائج میں عام شہری کی زندگی ابتر ہوگئی یے۔ روزگار یا تو بند ہوگئے ہیں یا ان کا چلنا محال ہے۔ کسی بھی میگا پراجیکٹ کے نہ چلنے کے باعث روزگار اور انڈسٹری کی حالت مخدوش ہے۔ افراط زر نے محدود آمدنی والے طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ روز مرہ کی اشیا گرانی کے باعث عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ بجلی اور گیس کی مہنگائی نے صنعت سے گھر کے بجٹ تک دونوں دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ روز مالیاتی اسکینڈلز کی خبریں آتی ہیں لیکن حکومتی عہدیدار و سہولت کار نیب، عدالتی سو موٹو اور قانون کے لمبے ہاتھوں کی پہنچ سے دور ہیں۔

اپوزیشن، صحافت اور اختلافی آوازوں کو نیب، اینٹی کرپشن کے کیسز، نوکریوں سے برخاستگی، میڈیا مالکان کی فائن ٹیوننگ، جعلی پرچوں اور سوشل میڈیا ٹرولز کے ہاتھوں کردار کشی کی مہموں سے دبا دیا گیا۔

ایسے میں ایک آواز جس نے اس جاڑے کی ٹھٹھرتی، یخ بستہ سردی سے زندگی کی نوید دی، پسے ہوئے، سہمے ہوئے لوگوں کو ہمت دی وہ آواز مریم نواز کی تھی۔ جبر کے بدترین ہتھکنڈوں کے سامنے مریم نواز چٹان بن کر کھڑی ہوگئی۔ باپ کو اس کی آنکھوں کے سامنے گرفتار کر کے، پھر باپ کی آنکھوں سے سامنے اسے گرفتار کرنے والوں نے سوچا ہوگا کہ جھک جائے گئی، ڈر جائے گی لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ جبر مسلسل اسے خام سے کندن بنا دے گا۔ اعصاب شکن جنگ میں فتح مریم نواز کی ہوئی۔ اس کے کمرے کے دروازے توڑے گئے، ورکرز کو اٹھا لیا گیا، دھمکایا گیا کہ مریم کا ساتھ چھوڑ دو لیکن لوگوں نے اس آواز کو امید جانا اور لبیک کہہ کر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔

مسلم لیگ ن نے ڈسکہ اور وزیر آباد میں جس جانفشانی سے حکومتی ہتھکنڈوں کا سامنا کیا اس کے پیچھے مریم نواز تھیں۔ کارکنان کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہیں۔ ان کی ہمت بڑھائی اور اس کمپین کو چلایا۔

ڈسکہ میں سرکاری اہلکاروں اور غنڈوں کا بیک وقت یکساں استعمال کرکے حکومت نے الیکشن چوری کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس میں ناکامی کا سامنا ہوا۔ دھند کا بہانہ بنا کر جس طرح پولنگ عملے کو اغوا کرکے نتائج تبدیل کئے گئے، وہ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔

مریم نواز کی آواز نے جاڑے، دھند، دھندلکوں اور دھاندلی کی بساط لپیٹ دی ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بہار کی آمد کا پتا دے رہا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی ضلع بدری و معطلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب مارچ میں اس سیٹ پر جب دوبارہ الیکشن ہوگا تو شاید وہ "دھند” اور "دھاندلی” پر اپنا اختیار کھو دیں۔

مارچ بہار کی آمد کا موسم ہے، بہار نئے کونپلوں اور خوشوں کے کھلنے کا مہینہ ہے۔ مارچ میں سردی، سرد مہری ختم ہوجاتی یے۔ دھند فروری سے آگے نہیں جاتی۔ مارچ میں دھند نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments