عابد بخاری صاحب  کا مولانا آزاد پر ناشائستہ حملہ


\"shakilسید عابدعلی بخاری صاحب نے مولانا ابوالکلام  کے بارے میں اپنےمضمون میں بہت زیادہ جذباتی اور نا شائستہ لفاظی سے کام لیا ہے۔  اگر وہ حقائق کی چھان بین پر ذراسی محنت کرلیتےتو ان کے دلائل اتنے سطحی  نہ ہوتے۔اس تحریر کو کسی بھی طرح محققانہ اورمتوازن قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کی تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیت بڑھانے پر ذرا بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ کو تعلیم دینے کے بجائے ان کی برین واشنگ کررہے ہیں۔
بخاری صا حب نے یہ  فتویٰ  صادر کردیا ہے کہ ’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معرضِ وجود میں نہ آیا ہوتا تو بھارت کی آبادی میں اٹھارہ کروڑ مسلم غلاموں کا اضافہ ہو چکا ہوتا جن کی حیثیت شودروں سے بھی کمتر ہوتی۔‘ انہوں نے بنگلہ دیش کے پندرہ کروڑ مسلمانوں کو  کیوں نظر انداز کردیا ہے؟  کیا وہ پاکستان  سے علیحدہ ہوکر مسلمان نہیں رہے؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے دعوے کے برعکس ہندوستانی مسلمان خود کو غلام نہیں سمجھتے؟  کیا جمعیت علماء ہند‘ جماعت اسلامی ہند‘ انڈین یونین مسلم لیگ‘ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین  اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے رہنما اپنے آپ کو غلام سمجھتے ہیں؟  کیا مسلم دورحکومت میں ہندوغلام تھے؟  اگربادشاہت میں ہندو غلام نہیں تھے تو جمہوری دور میں مسلمان غلام کیسے  بن جاتے؟  کیا مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمان بھی غلام ہیں؟

ایسا لگتا ہے کہ مولانا آزاد اورہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بخاری صاحب کی معلومات سنی سنائی بلکہ خیالی باتوں پرمشتمل ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ ہندوستان   جاکر وہاں کے  مسلمانوں سے ملیں ۔ اگر فی الحال ایسا ممکن نہیں تو پھرفیس بک  یا ای میل کے ذریعے ہی ان سے رابطہ کرلیں۔  انہیں  کم از کم اسدالدین اویسی ‘ ذاکرنائیک  اور ایم جے اکبرسے ضرور رابط کرنا چاہئے۔  ہوسکتا ہے کہ بخاری صاحب کو لینے  کے دینے پڑ جائیں۔
اگرکسی ہندوستانی مسلمان  نے پاکستانیوں کو غلام قراردے دیا تو بخاری صاحب کیا جواب دیں گے؟  وہ بخاری صاحب سے پوچھ سکتے ہیں:   آپ  کے ہاں دو قسم کے قانون کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آپ نے ایک شخص کے قتل کے الزام میں بھٹو کوتو پھانسی  دے دی اور سینکڑوں افراد کے قتل کے ملزم مشرف پر مقدمہ بھی نہ چلاسکے؟   ایک طرف آپ کا آئین تمام شہریوں کے حقوق کی برابری کی بات کرتا ہے  اور دوسری طرف غیر مسلموں کو ریاست کے اعلی ٰ ترین عہدوں کے لئے نااہل   قراردیتا ہے۔ اس  تضاد کی وجہ کیا ہے؟   آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے بنایا گیا تھا تو پھر آپ نے مولانا شبیر احمد عثمانی  کے بجائے جوگندر ناتھ منڈل  نامی ایک ہندوکو اپنا پہلاوزیرقانون کیوں بنایا تھا؟  منڈل صاحب  انیس سو پچاس میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان کیوں چلے آئے تھے؟ انہوں نے اپنے استعفا کے خط میں یہ کیوں لکھا تھا کہ پاکستان میں غیر مسلموں اور خاص طور پرہندوؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں؟ واضح رہے کہ اس سال مشرقی پاکستان میں دس ہزار ہندو موت کے گھاٹ اتار دئے گئے تھے۔منڈل صاحب کے استعفا کا متن مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔ https://en.wikisource.org/wiki/Resignation_letter_of_Jogendra_Nath_Mandal
وہ آپ سے یہ  بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کا توہین مذہب کا سخت ترین قانون پاکستان ہے ۔اس کے باوجود توہین مذہب کے سب سے زیادہ واقعات پاکستان میں کیوں رپورٹ ہوتے ہیں؟  کیا یہ درست ہے کہ اس قانون کے تحت ملزم کو سزا دینے کے لئے اس کی نیت کاکوئی کردارنہیں؟ اس قانون کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کیوں یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور فقہائے احناف کی آراءکے خلاف ہے؟  اس مسئلہ پر مولانا وحیدالدین خان کی کتاب پر پاکستان میں پابندی کیوں ہے؟ پاکستانی ریاست اور معاشرے کو احمدی اور لاہوری فرقوں کو غیر مسلم قراردے کرکیا فائدے حاصل  ہوئے؟ اگراحمدی واقعی غیرمسلم ہیں تو پھرایک احمدی آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کیسے بن گئے تھے؟ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ نے ضلع گورداس پور میں مسلمانوں کی اکثریت ثابت کرنے کے لئے   احمدیوں کو مسلمان شمار کر  نے پر کیوں اصرار کیا تھا؟   سردارشوکت حیات  نے اپنی سوانح عمری ’گم گشتہ قوم‘ میں کیسےیہ لکھ دیا ہے کہ  جناح صاحب نے انہیں حکم دیا  تھاکہ ’تم قادیان جاؤاور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤکہ وہ حصول پاکستان کے لئے اپنی نیک دعاؤں اورحمایت سے نوازیں‘؟ شانتی نگر‘گوجرہ‘سانگلہ ہل ‘بادامی باغ  اور شادباغ  کالونی میں رہنے والے مسیحی لوگوں پر حملے کیوں کئے گئے تھے؟  ان میں سے کتنے حملہ آوروں کو سزادی گئی؟  ڈاکٹر اے کیوخان کے مطابق ہم نے  مشرقی پاکستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کیا تھا۔  کیا اس کے ذمہ داروں میں سے میں کسی کو سزا ہوئی تھی؟ بخاری صاحب نے گجرات کے فسادات کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔کیا انہیں معلوم ہے کہ ان فسادات میں ملوث ہونے کے باعث گجرات کی سابق وزیر  مایا کودنانی اٹھائیس سال اور بجرنگ دل کے رہنما بابو بجرنگی عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں؟

بخاری صاحب  نےصحیح کہا ہے کہ ’علم و تحقیق کا سفر ریاضت مانگتا ہے۔ ہنگامہ ہائے حیات میں یہ بہر طور ایک مشکل منزل ہے۔ میرے نزدیک یہ امر قابل افسوس ہے کہ کسی شخص کا علم و فضل یا احترامِ ذات ہمیں حق گوئی سے باز رکھے۔‘ بخاری صاحب کو چاہیئے کہ وہ اب علم و تحقیق کا سفر شروع کر ہی دیں۔ کوئی بات نہیں اگر یہ ریاضت  مانگتا ہے۔ اور ہاں حق گوئی اور زبان درازی کا فرق ضرورملحوظ خاطر رکھیں۔
بخاری صا حب  نے  ایک’ غیر متعصب‘ برطانوی  تاریخ دان کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہہ ہندوستانی ’مسلمان تعلیم اور ملازمتوں سے باہر ہیں۔‘ میں نے دودفعہ بخاری صاحب  سے اس برطانوی تاریخ دان کا پورا نام پوچھا لیکن انہوں نے اب تک میری درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا جدید تعلیم کی طرف رجحان کم رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں ۔ حکومت نے اس صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اسی مقصد کے لئے سچر کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔  (پاکستان  میں اس طرح کی کمیٹیاں نہیں بنائی جاتیں۔ ) لیکن یہ کہنا کہ وہ تعلیم اور ملازمتوں سے باہر ہیں انتہائی مضحکہ خیز بات  ہے۔ہندوستان میں برما کی طرح مسلمانوں پر جدید تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہندوستان میں ایران والی صورت حال بھی نہیں جہاں بہائیوں کو اعلی ٰتعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔
بخاری صاحب شاید نہیں جانتے کہ تین مسلمان ہندوستان کے اعلیٰ ترین عہدے یعنی صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ چار مسلمان ہندوستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔وہ ہندوستان کے وزیر خارجہ ‘ سیکرٹری خارجہ ‘ چیف الیکشن کمشنرز‘ وائس چانسلرز‘ گورنرز‘سفراء‘ ایڈیٹرز‘ انٹیلی جینس بیورو کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے متمول ترین مسلمان عظیم پریم جی کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ ہندوستان کے موجودہ نائب صدرحامدانصاری متحدہ عرب امارات‘ ایران‘سعودی عرب‘ افغانستان اوراقوام متحدہ میں سفیر رہ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے موجودہ سفیر کا نام سید اکبرالدین ہے اور اس سے پہلے وہ وزارت خارجہ کے ترجمان تھے۔ ان کے والد سفیر اور وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں کتنے ہندو اعلی ٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں؟ یہ بھی فرما دیجئے کہ تقسیم کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی اور اب کتنی ہے اور یہ کہ پاکستان میں اس وقت کتنے ہندو تھے اور اب کتنے ہیں؟ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے پاکستان میں ہندوآبادی کا کتنے فیصد تھے؟

بخاری صاحب  کو پاکستان میں تعلیم کی صورت حال پربھی کچھ توجہ دینی چاہیئے۔ و زیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان نے6 اگست 2015کو کہا  تھاکہ بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کے مطابق تیس فیصدپاکستانی بچے سکول نہیں جاتے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مطابق پاکستان میں چھ اور سولہ کی درمیانی عمر کے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔
بخاری صاحب نے اکیس مارچ کو  فیس بک پر یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت عدم برداشت اور تشدد کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورت حال کب پیدا ہوئی؟ کیا اس سے پہلے بھی پاکستانیوں کی ہندوستان  کے بارے میں بھی یہی رائے نہیں تھی؟کیا پاکستانیوں نے کسی بھی ہندوستانی وزیراعظم کو سیکولر تسلیم کیا؟ کیا یہ تنقید پاکستان پر لاگو نہیں ہوتی؟ کیا ہمارا جذبہ حب الوطنی ہمیں یہ سچ بولنے کی اجازت دے گا؟ کیا ہندوستان کے  کچھ سیکولر حلقے یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کا ملک بھی پاکستان کے راستے پر چل پڑا ہے؟ پاکستان کی ایک شاعرہ نے تو اس پر ایک نظم بھی لکھ دی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کے انتہا پسند ا ب تک اپنے ملک  کو ہندوریپبلک نہیں بناسکے ہیں۔ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔

ایک طرف تو بخاری  صاحب کہتے ہیں کہ ’ابوالکلام آزاد کے بارے میں جو اندازِ بیان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے وہ قابل تحسین اور لائق ستائش نہیں۔‘ اس کے بعد انہوں نے نہ صرف خودمولاناآزاد کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال کی بلکہ ان کے بارے ناشائستہ ترین پھبتی کو جواز بھی بخش دیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ انہیں اپنا یہ تضاد کیوں نظر نہ آیا۔ بخاری صاحب نے فرمایا ہے کہ ’مسلمانانِ ہند کے موجودہ حالات کے ذمہ داروں میں سب سے اوپر شائد آزاد ہی کا نام آتا ہے۔ آزاد کا تعلق اس قبیل سے تھا جنہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو غلامی کا درس دینے میں اپنی زندگی کی قیمتی ساعتیں صرف کیں۔ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی اسلامی شناخت ظاہر کرتے گھبراتے ہیں۔ اپنی ذاتی دنیا میں بے باک، کھرے اور ریاضت کیش آزاد دلیل کی دنیا میں نہ جانے کیوں کمال ہنر مندی سے ڈنڈی مار گئے ہیں۔ انہوں نے سر زمینِ ہند میں مسلمانوں کے قلب و نظر میں غلامی کے تصور کو راسخ کرنے میں ناقابلِ بیاں حد تک اہم کردار ادا کیا۔ بہت سلیقے کے ساتھ کانگریس، ہندوؤں اور انگریزوں کا ساتھ نبھایا۔‘

آزادی  کے لئے گیارہ برس انگریز کی جیل میں گزارنے والے پر یہ الزام لگانا کہ انہوں غلامی کے تصور کو راسخ کرنے کے لئے انگریزوں کا ساتھ نبھایاتاریخ کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ حیرا ن ہوں‘ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ کاش اتنی  بڑی زبان درازی  کرنے سے پہلے بخاری صاحب  نے پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر چودھری خلیق الزمان کی سوانح عمری ’شاہراہ پاکستان‘ہی  کا مطالعہ  کرلیا ہوتا۔ اس سے انہیں پتہ چلتا  کہ تقسیم ہند سے ایک ہفتہ پہلے دہلی مسلم لیگ کے ایک عہدے دار نے کس طرح جناح صا حب کو لاجواب کردیا تھا۔ چودھری صاحب کے خیال میں یہ اس گفتگو کا نتیجہ تھا کہ جناح صاحب نے اپنی گیارہ اگست کی مشہورتاریخ میں  دوقومی نظریہ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ چودھری صاحب نے حسین شہیدسہروردی کاتائیدی انداز میں حوالہ دیا ہے کہ دو قومی نظریہ مسلمانان ہند کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔کیا یہ حقیقت نہیں تقسیم ہند کےبعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلم لیگی منہ چھپاتے پھرتے تھے؟   انہیں مرنے مارنے کے جذباتی نعرے بھول چکے تھے اور ان کے رہنما انہیں یکہ وتنہا چھوڑ کر کراچی تشریف لے جا چکے تھے۔وہ مسلم آئی سی ایس  افسروں کی ایک  بہت بڑی تعداد بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اس وقت ہندی مسلمانوں کومولانا آزاد کے علاوہ کس نے سہارا دیا تھا؟ بخاری صاحب کے مطابق مولانا آزاد ہندی مسلمانوں کی بدحالی‘ غربت‘ فاقوں‘مفلسی اور جہالت کے ذمہ دار تھے۔ ان سب مسائل کی ذمہ داری آل انڈیا مسلم لیگ پر کیوں عائد نہیں ہوتی ؟ کیا ان مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دئے تھے؟   دوقومی نظریہ کی روشنی میں مسلم لیگ نے ان سب کو پاکستان کیوں نہ بلوایا؟

بخاری صاحب نے بڑے ذوق وشوق سےابو الاعلی مودودی کی اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ ’مولانا نے نماز کے لیے اذان کہی مگر اس کے بعد گہری نیند سو گئے۔‘ کیا مولانا آزاد کو مودودی صاحب کے راستہ پر چلنا چاہیئےتھا؟ بہرحال  دونوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مخالفت قدر مشترک تھی۔ بخاری صاحب مولانا مودودی کی باتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس لئے میں ان کی خدمت میں مودودی صاحب کا ایک اور ارشادپیش کرنا چاہتاہوں۔’لیگ کے قائدا عظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔‘

 

  .

شکیل چودھری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شکیل چودھری

(شکیل چودھری نے بین الاقوامی تعلقات اور میڈیا کی تعلیم بالترتیب اسلام آباد اورلندن میں حاصل کی۔ وہ انگریزی سکھانے والی ایک ذولسانی کتاب ’ہینڈ بک آف فنکشنل انگلش‘ کے مصنف ہیں۔ ان کاای میل پتہ یہ ہے shakil.chaudhary@gmail.com )

shakil-chaudhari has 7 posts and counting.See all posts by shakil-chaudhari

Subscribe
Notify of
guest
27 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments