مریم نواز، دیا سلائی اور موجودہ حکومت کا انہدام


انگریزی چینلوں کی ڈاکومنٹریز میں کسی بھی عمارت کو گرانے کے دو طریقے دکھائے جاتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ امتداد زمانہ کے سبب عمارت دہائیوں میں بوسیدگی کی اس انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ انہدام اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ ہر اینٹ، مٹی ہو جاتی ہے اور ہر بنیاد میں ریت در آتی ہے۔ ہر دراڑ، شگاف بن جاتی ہے اور ہر دیوار برسوں لرزنے کے بعد دھڑام سے گر جاتی ہے۔ دوسرا طریقہ زیادہ موثر اور برق رفتار ہے۔

اس میں کسی ایک بنی بنائی نئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا جاتا ہے۔ ہر دیوار، ہر شگاف میں نہایت ہنر مندی سے باردو کے فتیلے رکھ دیے جاتے ہیں اور پھر ایک دن فیصلہ کر کے اس بارود کو آگ دکھا دی جاتی ہے۔ لمحوں میں بنی بنائی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ چھت سے لے کر بنیاد تک سب راکھ ہو جاتا ہے۔ خاک ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے انہدام کے لئے طریقہ نمبر دو استعال ہو رہا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی تو بات ہے جب سارے چینل چیخ چیخ کر عمران خان کی شرافت و نجابت کے قصے سنا رہے تھے۔ تبدیلی کو ستر سالہ صبر کا میٹھا پھل بتا رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کو ملک کا سب سے بڑا انقلاب بتا رہے تھے۔ کپتان کے اعلی و ارفع ٹیم بنانے کی صلاحیت کو گنوا رہے تھے۔ اپوزیشن کی کرپشن کے قصے گنواتے یہ تھکتے نہیں تھے۔ ٹاک شوز میں بے نامی ثبوتوں کے کاغذات فضا میں لہرا رہے تھے۔

اب وہی زر خرید لوگ ہیں جو گزشتہ حکومت کے لتے لے رہے تھے اب ان کو بی آر ٹی بھی نظر آ رہی۔ وزارت صحت میں کرپشن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب پولیس کی نا اہلی بھی گنوائی جا رہی ہے۔ معیشت کی حالت زار پر یہ ٹسوے بہا رہے ہیں۔ غریب آدمی کی ابتر صورت حال ان کو کسی شومیں چین نہیں لینے دیتی۔ پنجاب حکومت کی بری کارکردگی ان کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ لیکن حکومت کی یہ صورت حال صرف میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ اب سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے بھی خال خال نظر آ رہے ہین۔ ٹرولز کی ڈیوٹیاں کم ہو رہی ہیں۔

ایسے موقعوں پر چند جہاندیدہ حکومتی سیاستدان فرار کے نت نئے رستے بتا رہے ہیں۔ کوئی حکومت کے ایوانوں میں فارورڈ بلاک کی نوید دے رہا ہے۔ کوئی وزراء کے ذو معنی بیانات کے مفاہیم تلاش کر رہا ہے۔ جو پہلے کہتے تھے ہم این ار او نہیں دیں گے وہ اب سہواً کہہ رہے ہیں کہ ہم این آر او نہیں لیں گے۔ خان صاحب کے دوست احباب اچانک حکومتوں سے فارغ ہو رہے ہیں اور تو اور انہدام کی اس سے بڑی بشارت کیا ہو گی کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سیاست سے تائب ہو چکے ہیں۔

نواز شریف سے اہم لوگوں کی ملاقاتوں کی خبریں منظرعام پرآ چکی ہیں۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کون، کس کو، کتنی رعایت دینے کو تیار ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے دو طرفہ پالسی اختیار کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو مولانا فضل الرحمن کے متوقع انقلاب سے ہاتھ ملایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سے دھیرج دھیرج کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اچانک نواز شریف کی اپنے جان نثاروں اور وفاداروں سے ملاقات کروائی جا رہی ہے۔ نیب بھی کچھ عرصے سے مزید گرفتاریوں سے اجتناب کر رہا ہے۔ سیاسی انتقام کے کھیل میں اب اس کی دلچسپ ویسی نہیں رہی ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ آدھا گھنٹہ ٹریفک روکنے اور مظفر آباد میں ایک ناکام جلسے کے بعد کشمیر پالیسی کو قرار آ چکا ہے۔ امریکہ سے افغانستان کے پر امن تصفیے کے لئے جن ڈالروں کے آنے کی نوید تھی وہ بھی ٹرمپ کے ایک ہی بیان سے دم توڑ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اگلی قسط دینے سے پہلے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار حکومت کے سر پر لٹک رہی ہے۔ مہنگائی کا جن کسی طرح قابو ہی نہیں آ رہا۔ عام آدمی کی حالتِ زار روز بہ روز خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو کہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس خستگی کو جو آواز مل رہی ہے وہ حکومت کے لئے تشویش ناک بات ضرورہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا باتیں تو روز کی باتیں ہیں لیکن اصل خبر یہ ہے کہ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں تبدیلی کی تباہی پر تاسف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تبدیلی کا ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اپنے دس سالہ خوابوں کے چکنا چور ہونے پر ماتم کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی نا اہلی اور لا ابالی پن پر طنز کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس صورت حال پر طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اب ڈیمج کنٹرول کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب ہاتھوں سے جرم کے نشانات کو مٹایا جا رہا ہے۔ اب تبدیلی سے منہ کو چھپایا جا رہا ہے۔ موجود بحران کے حل کے لئے تجاویز مانگی جا رہی ہیں۔ مصالحت کا کوئی نیا فارمولہ ایجاد کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب انصاف کے در سے انصاف شروع ہو چکا ہے۔ تبدیلی کا سفر وہی سے شروع ہوا تھا اور وہیں سے اس کے انجام کے بارے میں سوچ جا رہا ہے۔ منصفوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جا رہے ہیں۔ غداری کے فتوے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ توہین عدالت کے کیس خال خال نطر آ رہے ہیں۔ نواز شریف سے مصالحت کی کوئی راہ نکالی جا رہی ہے۔

اس عمل کا آغاز مریم نواز کے خلاف مسلم لیگ ن کی نائب صرد سے نا اہلیت کی درخواست رد ہونے سے ہوچکا ہے۔ اس ایک فیصلے سے نشانیاں مل رہی ہیں۔ مریم نواز ہر بحران سے نکل رہی ہیں۔ یہ سب ایک تحریک انصاف کے خود ساختہ ہوائی قلعے کے انہدام کے لئے ہو رہا ہے۔ طریقہ نمبر دو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی گئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا ہے۔ مریم نواز کے کیس کے فیصلے سے دیا سلائی جلا دی گئی ہے۔

لیکن یہ ”خلائی قلعہ“ اس دن زمین بوس ہو گا جس دن نواز شریف کو کرپشن کے ہر کیس میں کلین چٹ مل جائے گی۔ اس وقت عمران خان کا کرپشن کے خلاف بنایا یہ قصر دھڑام سے زمیں پر آن گرے گا۔ یہ اتنی برق رفتاری سے ہوگا کہ دیکھنے والی آنکھوں کو یقین نہیں آئے گا۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف جیل میں صعوبتیں نہیں برداشت کر رہے بلکہ جیل میں انجوائے کر رہے ہیں۔ فی الوقت یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس ”خلائی قصر کرپشن“ کے انہدام میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ دیا سلائی جل چکی ہے کسی بھی وقت بارود کے فتیلے کو آگ دکھائی جا سکتی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar