مولویوں کا نوحہ کون لکھے گا (2)


\"waqar’مولویوں کا نوحہ کون لکھے گا ‘ کے مضمون پر بہت کمال اور مدلل آراء موصول ہوئیں۔ ذرا یہ پہلی رائے پڑھیے اور صاحب رائے کو داد دیجیے کہ یہ سارا مضمون انہوں نے مجھے فیس بک میں بطور میسج، ان باکس کیا ہے۔ دلائل اپنی جگہ اہم ہیں اور یہ نکتہ اپنی جگہ کہ دوست میری اصلاح کے لیے کس قدر محنت سے کام کرتے ہیں اور اس محنت کی بنیاد محبت کے سوا کیا ہے۔ پہلے ذرا یہ رائے پڑھیے

”ایک صاحب کو ذمہ دار اور حساس شہری بننے کے ولولہ انگیز خیال نے آن گھیرا تو دیوانہ وار رحمت کا گرز لہراتے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک بڑھیا کو سڑک کے کنارے کھڑا دیکھا تو فورا اس کا دھکڑا جان گئے۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر سرعت سے اسکو تیز رفتار ٹریفک سے گزار کر دوسری جانب لا کھڑا کیا اور طالب ستائش ہوئے۔ پھر بڑھیا نے انکی درگت بنائی اور وغیرہ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ بات نوحہ خوانی کی چل نکلی ہے تو دل تو ان کا بھی ٹوٹا تھا،

ایک مرثیہ اس بادشاہ کے نام بھی جس کو کسی نے انسانیت سکھائی ہی نہیں، چند اشک ہٹلر کے نام بھی کہ بچپن تو اس کا بھی تلخ تھا۔ کچھ آنسو بن لادن کے جنگجوو¿ں کی نذر بھی اور کم از کم آنکھیں تو ٹرو مین کے لئے بھی نم کیجئے کہ نجانے کس نفسیاتی گرہ کے تحت لاکھوں لوگ نابود کر دیئے۔اور پھر صف ماتم ہی بچھا دیجئے کہ عقل و خرد کا اور درد دل کا انتقال پرملال بھی لگتا ہے ہو چکا اور انسان جو کبھی کائناتی ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل تھا اب محض حوادث زمانہ کا لاحاصل سا حاصل ٹھہرا ۔

میرے دوست آپ کے شوق مرثیہ نگاری نے علمائے جہالت اور ان کے حواریوں کو یوں کردہ اور ناکردہ اعمال قبیح سے بری الزمہ قرار دیا ہے کہ 70 ماﺅں کے کلیجے بھی اس بحر ترحم کے لئے ناکافی ہوں گے۔

’مولوی‘ جس کو میں آج تک جمود، ہٹ دھرمی اور کج بحثی پر مبنی شعوری روئیے کا مظہر سمجھتا رہا آج ایک معصوم ، گول مٹول سفید ننھا بچہ نظر آنے لگا ہے جو فقط میرے صرف نظر کے ردعمل میں ’مولبی‘ بن گیا۔آپ کی تاویلات الہیہ نے منکشف کیا کہ 18 سال سے یقیناً بڑی عمر کے یہ تمام لوگ جو ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے بر سر پیکار ہیں درحقیقت کھلنڈرے بچے ہیں اور فرقہ واریت، انتہاپسندی، دہشت گردی اور قتال ان کی وہ معصوم شرارتیں جن کو کرنے کا موقع زمانے کے گرم سرد نے زمانہ طفولیت میں نہیں دیا۔

مدارس میں دوران تعلیم ماں باپ سے دوری ان کے دلوں میں اتنی اداسی بھر گئی ہے کہ اب یہ باقی سب بچوں کو بھی اپنے غم میں شریک کرنے پر تل گئے ہیں۔

بیچارے معصوم اور کریں بھی تو کیا۔ کہ آپ خصوصاً اور میں عموماً بھی ان کی جگہ ہوتے تو یہی کرتے نا ؟

مگر رکیے !! میں کچھ ایسے نفوس سے آگاہ ہوں جو مولوی نہیں بنے حالانکہ سونے کا چمچ ان کے منہ میں بھی نہیں تھا۔ تاریخ میں کئی ایسے لوگ بھی آئے ہیں جنہوں نے معاشی اور معاشرتی مشکلات سے قطع نظر اخلاقیات کے، جدت کے ، آزادی رائے کے، انسانی حقوق کے فروغ اور نفاذ کے لئے جدوجہد کی۔ ریاست کی سردمہری اور معاشرے کی بے اعتنائی ان کی سوچ کو منجمد نہ کر سکی، وہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا بدلہ بے گناہوں سے لینے پر مجبور نہ ہوئے۔ عجب لوگ ہیں وہ کہ علم سے دوری تحصیل علم میں حائل نہ ہوئی ، یتیم اور مسکین ہو کر بھی کینہ اور بغض کو دل میں جگہ نہ دی ، مفلوک الحال ہو کر بھی حاسد نہ بنے۔ مر گئے ، مٹ گئے پر ’مولوی‘ نہیں بنے۔

حضرت پیر و مرشد اپنی مامتا کی چھاﺅں ان تہی دامنوں پر بھی دراز کیجیے۔ جو ان مولبیوں کی نفسیاتی گرہوں کا شکار ہو گئے۔ وہ سالے جو بچے نہ رہے۔ بڑے ہو گئے۔ “

(اقتباس تمام ہوا )

\"3600652764\"اب آپ سے کیا پردہ یہ رائے ہمارے محترم دوست شعیب سرور کی تھی۔ ان کے لیے برادرانہ مشورہ ہے کہ چھوئی موئی پن سے باہر آئیں ، وجاہت مسعود صاحب کا پلو پکڑیں اور باقاعدگی سے ’ہم سب‘ کے لیے لکھیں۔

دوسرا ایک کالم جناب بخت محمد برشوری صاحب نے تحریر کیا۔ تحریر کا محرک جان کر شرمندگی ہوئی کہ انہوں نے میرے مضمون سے کچھ مثبت نتیجہ برآمد نہیں کیا اور اس کے رد عمل میںاپنی حسین یادوں پر محیط ایک مضمون لکھ دیا۔ ہمیں تو برشوری صاحب ایک کمال کے آدمی لگے کہ چاہے انہوں نے میری تحریر میں اپنی سمت آتے کچھ پتھر ہی دیکھے لیکن ردعمل میں پھول روانہ کیے، میں شکر گزار ہوں۔

جہاں تک جناب من شعیب سرور کی رائے ہے تو میںتکنیکی اعتبار سے ان کو جواب دینے کے لیے اپنے آپ کو مجبور نہیں پاتا۔ ان کی رائے کو ان کی ذاتی زندگی کے معمولات سپورٹ نہیں کرتے۔ تصور کیجئے کہ ایک صاحب جو خود مولویوں کو گھٹ گھٹ کے جپھیاں لگاتے ہوں۔ دوستوں میں قابل قدر تعداد مولویوں کی رکھتے ہوں اور ان کے کسی غلط تصور پر اڑ جانے کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ہوں ۔ان کو کیا جواب دیا جائے؟

ہم تو کئی دفعہ مولویوں سے کسی بحث میں متھا لگانے اور بدتمیزی کرنے کے جرم کے بارہا شکار بھی ہوئے اور پھر نادم بھی ہوئے لیکن محترم کی زندگی میں اب تک کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے کہ بحث کے دوران کوئی گستاخانہ فقرہ ہی منہ سے نکل جائے۔ ہم نے اب تک ان کو سراپا ہمدردی ہی دیکھا‘ بلکہ ایسے مناظر بھی دیکھے کہ کسی باریش کی سر زنش کے سامنے عجز سے سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ طالبان سے ببانگ دہل ہمدردی کا اظہار کرنے والے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے شعیب سرور ، ’استاد محترم‘ کا لقب استعمال کرتے ہیں۔

تو تکنیکی اعتبار سے چاہے ان کی رائے جواب کی مستحق نہ ہو ، پھر بھی دوست ہیں۔ دلیل دلیل کھیلنے کو دل کرے تو دوست کا دل رکھنا مخلص دوستوں کا فرض ہے۔

مرشد تھوڑی تصحیح فرمائیں کہ مولوی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر تو مولوی کسی ٹدی دل فوج کا نام ہے جو ہماری عقلی فصلیں برباد کر رہی ہے تو حکومت کو سپرے کا بندوبست کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر اس جملے میں ٹڈی دل فوج اور عقلی فصلیں محض استعارہ ہیں اور ان استعاروں کے پیچھے اصل میںجیتے جاگتے سانس لیتے انسان کھڑے ہیں تو ہمیں محتاط ہونا پڑے گا۔ اور مجھے قوی یقین ہے کہ مولوی سے آپ کی مراد فکر کے حوالے سے ہی ہے۔ جس کی دلیل آپ کے مضمون میں ہی پائی جاتی ہے۔

آپ نے مولوی لفظ لکھتے ہوئے ’کاما‘ کا استعمال کیا۔ میرا خیال ہے کہ کاما میں مقید مولوی کے لفظ کو آپ بطور ایک خاص فکر کے لینا چاہتے ہیں۔

\"bakht\"کیا ہم اس بات پر متفق ہیں کہ مولوی ایک خاص فکر کا نام ہے۔ اگر یہ ایک فکر ہے تو اس کو فکری محاذوں پہ لڑا جائے۔ انسانوں سے گتھم گتھا ہونے سے کیا حاصل ہو گا۔ انسان ہی نہ رہا تو فکری تربیت کے کیا معنی۔انسان کا زندہ رہنا بنیادی شرط ہے جس کو ہمارے مذہبی متشدد سوچ رکھنے والے دوست کم سمجھتے ہیں ۔ میں تو یہی خیال کرتارہا کہ آپ کی سوچ اس متشدد فکر سے اسی لیے بہتر ہے کہ انسانی جان کی حرمت آپ کی سوچ کو زیادہ عزیز ہے۔

عجیب بات ہے کہ پاکستان میں تمام اشاریے آپ کی فکر کے مضبوط ہونے کا پتہ دیتے ہیں، حکومت آپ کی، عدالتیں آپ کی اور مزید خوشخبری یہ کہ فوج کے اندر بھی آپ کی فکر کی جانب جھکاﺅ دیکھنے کو مل رہا ہے تو اب ہیجان کس بات کا۔ انفرادی زندگیوں میں آتی فکری تبدیلیاں وقت لے لیتی ہیں لیکن یہ تو اجتماعی سوچ کا معاملہ ہے تھوڑا صبر کر لیں۔

آپ اپنی دلیل میں ہٹلر کو بھی لے آئے تو کیا ہمیں مولوی لفظ کی تشریح کو مزید وسعت دینی پڑے گی ۔ کیونکہ وہ مضمون اپنے سیاق و سباق میں مقامی موضوع رکھتا تھا لیکن آپ فاشسٹ یعنی انتہائی دائیں رویے کو بطور مثال لے کر آئے ہیں جس سے مجھے شبہ ہے کہ مکالمے کا نتیجہ نکلنے کے امکانات کم ہو جائیں گے ، بالخصوص اس لیے کہ مکالمے کی ابتدا یعنی میرے مضمون کا موضوع یہ نہیں تھا۔

آپ نے کچھ ایسے نفوس کا ذکر کیا ہے جو سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود مولوی نہیں بنے۔ جنہوں نے معاشی اور معاشرتی مشکلات سے قطع نظر اخلاقیات کے، جدت کے ، آزادی رائے کے، انسانی حقوق کے فروغ اور نفاذ کے لئے جدوجہد کی۔ یہ بات لگتی تو بہت خوبصورت ہے لیکن ایک تشنگی رہ گئی کہ کچھ مثالیں بھی بیان کر دیتے۔ آپ جیسے سائنسی فکر رکھنے والے کسی تحقیقی موضوع پرادبی چاشنیوں سے لطف اندوز ہونے لگیں تو نتیجہ نکلنے کے امکانات موہوم ہو جائیں گے۔ اب کیوں کہ آپ نے کوئی مثال نہیں دی تو اس بات کا کیا جواب دیا جائے۔ ویسے آپ کو بطور مثال بھی سامنے رکھا جا سکتا ہے کیونکہ آپ بھی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے اور مولوی بھی نہیں بنے۔ اس مثال کا جواب اس سوال میں ہے کہ آپ کے تعلیمی ادارے کون سے رہے؟ آپ کے تعلیمی اداروں کی فہرست ہی جواب ہے۔ فیض صاحب کے آپ گرویدہ ہیں لیکن کیا عجب اتفاق ہے کہ فیض صاحب کے محلے میں ایک لائبریری نما دکان تھی جس کے مالک کو سب بھائی صاحب کہا کرتے تھے۔ آج جس کو ہم کلاسک ادب کہتے ہیں اور ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ ادب اس وقت لائبریریوں کا بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اب کیوں کہ ہمارے ہاں ’بھائی صاحب لائبریری ‘ اتفاقات کم ہوتے ہیں اس لیے فیض صاحب بھی کم نکلتے ہیں۔ آپ اتفاقات کو بڑھا دیجئے ، فیض صاحبان کی تعداد کی بڑھوتری کے امکانات وسیع تر ہو ں جائیں گے۔ ادارہ جات نے اچھے نتائج دیے ہیں ۔ سر زمین مغرب گواہ ہے اور آپ سے بہتر کون جانتا ہے؟

میرے چاکسو کلاں کی آبادی پانچ ہزار ہے جہاں ایک مدرسہ بھی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گاﺅں میں شاید ہی کسی گھر کا بچہ مدرسہ میں کل وقتی طالبعلم ہو۔تمام بچے آس پاس کے علاقوں میں شدید غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گاﺅں میں اتنی خوشحالی ہے کہ روٹی کھانے کے بعد بھی کچھ پیسے بچ جاتے ہیں۔ اس ملک میں جس کے پاس روٹی کھانے کے بعد بھی کچھ پیسے بچ رہیں وہ اپنے بچوں کو گورنمنٹ سکولز یا پرائیویٹ سکولز میں بھیجتا ہے(اگر ہوں تو)۔ ان سکولز میں بھی چاہے تعصب زدہ نصاب ہی کیوں نہ پڑھایا جاتا ہو لیکن امکان بڑھ جاتا ہے کہ کوئی بچہ بڑا ہو کر شعیب سرور بن جائے گا مولوی نہیں بنے گا۔ سونے کا چمچ لے کر نہ پیدا ہونے اور شدید غربت یا یتیمی میں آنکھ کھولنے میں فرق ہے۔ننگی غربت کو سمجھنے کی کوشش کریں وگرنہ غریب تو ہم سب ہی ہیں۔

کسی ملک کے سماجی تانے بانے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شہروں اور گاﺅں میں آبادی کا صحیح تناسب معلوم ہو۔ اگر ہماری آبادی کا پینسٹھ سے ستر فی صد دیہاتوں میں رہتا ہے تواس فکری قضیے کو سمجھنے کے لیے ہماری ستر فی صد توجہ گاﺅں کی معاشرت کو سمجھنے میں صرف ہونی چاہیے۔ اگر مولوی کو ستر فی صد سے بھی زائد ’مال‘ دیہاتوں سے مل رہا ہے تو خدا کے لیے اس ستر فی صد پہ رحم کھائیے۔یہ آپ کی ہمدردی کا مستحق ہے۔ آپ جن عقلی دلائل سے مالا مال ہیں یہ حسین دلائل وافر اطلاعات کی دین ہیں۔ دیہات میں اطلاع نہیں پہنچتی۔ مخالف بیانیہ جو دماغ کے سرمئی حصوں کی بڑھوتری کا سبب بنتا ہے وہاں دستیاب نہیں ہے۔ کوہستان میں جب سے ’اطلاع‘ پہنچنا شروع ہوئی ہے کیا فکری تبدیلی آنا شروع نہیں ہوئی؟ کیا ہنزہ اور دیامر کے معاشروں میں فرق جاننے کے لیے فکری تقابلی جائزے میں اہم ترین جز ، علم اور علم دینے کے وسائل نہیں ہیں؟

\"seminary\"فاٹا، خیبر پختونخوا کے دیہی علاقے ، جنوبی پنجاب سے کر بلوچستان تک گھوم جائیے اور جا کر فکر کو جانچئے۔ بلوچستان میں ہوشاب کے کسی بچے سے آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ سونے کا چمچ لے کر پیدا نہ ہو اور انسانی حقوق کے فروغ وغیرہ کے لیے سر گرم ہو ۔ بہت عجیب بات ہے۔ اور اگر آپکو یہ نقطہ عجیب لگا ہے تو میرے ساتھ آئیے ان علاقوں میں جا کر لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھتے ہیں کہ یہ حق آزادی رائے اور انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ آپ کے سوال پر حیرانی سے کھلے منہ اور پھٹی آنکھیں سوال کا جواب ہوں گی۔

زندگی کے لیے بنیادی اسباب میسر ہونے کے بعد فکری جمالیات کا سنگ میل آتا ہے ۔

ایک اینکر ہیں ٹی وی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور قوم کا کیا درد سینے میں رکھتے ہیں ایک دفعہ بغض ملالہ میں کہہ رہے تھے کہ یہ لڑکی ہماری دنیا میں بے عزتی کرتی پھر رہی ہے ہمارے بچے اسکول نہیں جاتے، کس قدر جھوٹی ہے یہ۔ میرے بچے اسکول جاتے ہیں میرے تمام رشتہ داروں کے بچے اسکول جاتے ہیں یہاں تک کہ محلے میں میں جن جن کو جانتا ہوںسب کے بچے اسکول جاتے ہیں ۔ناظرین اسکول چھٹی کے وقت ہماری سڑکوں پر ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے ۔اور یہ ملالہ کہتی ہے کہ پاکستان میں بچے اسکول نہیں جاتے ۔ اگر تو شہری عینک سے اس ملک کو دیکھنا ہے تو آپ اس قضیے کو کبھی حل نہیں کر سکیں گے کہ وقار ملک مدرسے کے بچوں سے کیوں ہمدردی رکھتا ہے۔

آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”میرے دوست آپ کے شوق مرثیہ نگاری نے علمائے جہالت اور انکے حواریوں کو یوں کردہ اور ناکردہ اعمال قبیح سے بری الزمہ قرار دیا ہے کہ 70 ماوں کے کلیجے بھی اس بحر ترحم کے لئے ناکافی ہوں گے“

آپ کی اس بات سے مجھے شک گزرا کہ آپ نے مضمون دھیان سے نہیں پڑا اور مضمون پڑھتے ہوئے بھی آپ کی توجہ عنوان پر ہی مرکوزرہی۔

میں نے لکھا تھا ، ”مولویوں کی شاطر لیڈر شپ اتنی ہی مجرم ہے جیسے غیر مولوی لیڈر شپ، اس کے ساتھ جو مرضی کریں…. لیکن معاشرے میں عام مولوی سے نفرت کیوں؟ یہ ہماری نفرت کے مستحق ہیں یا ہمدردی کے“

اگرکسی فکر کا رہنما ، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرتاہے ، علم حاصل کرنے سے روکتاہے ، آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاتا ہے ، عورتوں کو صنفی تعصب کا نشانہ بناتا ہے تو اس کو قانون اور آئین کے مطابق کٹہرے میں لائیں ۔لیکن اگر اس طرح کی فکر کا کوئی ادارہ ، ریاست کی چشم پوشی کا فائدہ اٹھا کر نسلوں کو یرغمال بناتا ہے تو وہ نسلیں آپ کی ہمدردی کی مستحق ہیں۔ آپ ان کے حقوق کے لیے ہمدردی کی بنا پر ہی آواز اٹھائیں گے۔ نفرت کی بنیاد پر فاصلے تو نہیں بڑھائیں گے۔

اور نسلوں کا لفظ جب میں استعمال کر رہا ہوں تو آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ Normal Distribution Curve کو آ پ اپنے دلائل میں ٹانکتے ہی رہتے ہیں۔ کیا جب ہم فکری محاذوں کی بات کرتے ہیں تو نارمل ڈسٹری بیوشن کی یہ خم دار لکیر ہی پیش نظر نہیں ہوتی۔ قبلہ مولویوں کے لیے بھی ایسا ہی ایک Curve بنائیے ۔

اور 5% Significance Level پر قوانین کو بروئے کار لائیے اور 95% کے لیے ادارے بنانے کا سوچیے۔ 95% فی صد سے نفرت یا سزا کسی خیالی دنیا میں بہترین آئیڈیا ہو سکتا ہو گا ، عملی دنیا میں انتشار کے سوا کچھ نہیں ۔

بخت محمد برشوری صاحب نے کہا ہے کہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ غربت نہیں بلکہ نظریہ ہے۔

خوش کن بات ہے اگر مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کو جدید علم اور متضاد بیانیوں تک رسائی حاصل ہے ،

اگرسچ اور حقیقت کا فیصلہ مدرسہ کے دروازہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی نہیں سنا دیا جاتااور فطرت کے دیے دماغ کو سوچنے کی آزادی حاصل ہے،

اگر طالبعلموں کا معیار زندگی مناسب ہے ، تو ہمارے اعتراض کی کیا گنجائش بچتی ہے۔

ہم تو آپ کے شکر گزار ہوں کہ ملک کی کثیر آبادی کو وسائل مہیا کر رہے ہیں۔

ہاں یہ انتظار کرنے کی اجازت تو دیں کہ مدرسے سے کسی نئے طبعی قانون کی دریافت ، کسی تہلکا مچا دینے والی ایجاد کی خوشخبری، کسی ریاضیاتی مسئلہ کی سلجھی گتھی کی خبر ہی آ جائے۔ اور اگر یہ کم تر علم ہے اور آپ کے مقام کو زیبا نہیں کہ ان چھوٹی باتوں پر غور کریں تو مجھے اندیشہ ہے کہ موبائل ، پنکھے ، فریزر کے ٹھنڈے پانی اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال آپ کے اند ر ایک تکلیف دہ دوئی پیدا نہیں کرے گا؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments